سعودی عرب میں پاکستانیوں کا رمضان کیسے گزرتا ہے؟

سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کا رمضان روایتی ثقافت اور مقامی تہذیب کے امتزاج کا حسین مظہر ہوتا ہے۔

اب سحر و افطار میں مقامی پکوان کا رواج پاکستانیوں میں بھی عام ہو رہا ہے اور وہ پاکستانی خاندانوں کے سحر و افطار کا لازمی جز بن گئے ہیں (اے ایف پی)

دنیا بھر کے اسلامی ممالک کی طرح سعودی عرب میں بھی ماہ رمضان ایک تہوار کی طور پر منایا جاتا ہے اور اس کا اثر نہ صرف لوگوں پر نظر آتا ہے بلکہ اس مہینے میں یہاں کی فضا ہی مختلف ہوتی ہے اور ہر شے رمضان کے رنگ میں رنگی ہوتی ہے۔

سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کا رمضان روایتی ثقافت اور مقامی تہذیب کے امتزاج کا حسین مظہر ہوتا ہے جو سحر و افطار کے دسترخوان سے لے کر تراویح اور عبادات کی ادائیگی تک رمضان سے جڑے ہر عمل میں نظر آتا ہے۔

وہاں مقیم پاکستانیوں کی تعداد 25 لاکھ سے زیادہ ہے اور یہاں کے بڑے شہروں میں پاکستانیوں کے مخصوص محلے ہیں جہاں کا ماحول دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ یہ پاکستان کا ہی حصہ ہیں۔

روایتی طور پر سعودی عرب میں مقیم پاکستانی خاندان پردیس میں رہتے ہوئے بھی ’پاکستانی محلوں‘ میں دستیاب دیسی اشیا کی بدولت سحر و افطار میں پاکستانی پکوان، سموسے، پکوڑے، دہی بھلے وغیرہ کا انتظام کرتے تھے۔

تاہم اس کے متعلق ہم نے چند پاکستانی خواتین سے بات کی تو معلوم ہوا کہ اس رجحان میں کچھ تبدیلی آئی ہے اور اب سحر و افطار میں مقامی پکوان کا رواج پاکستانیوں میں بھی عام ہو رہا ہے اور وہ پاکستانی خاندانوں کے سحر و افطار کا لازمی جز بن گئے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں کچھ عربی ماکولات و مشروبات پاکستانیوں نے اپنا لیے ہیں وہیں کچھ اشیا ایسی ہیں جو برصغیر میں بھی افطار وغیرہ میں کھائی جاتی ہیں مگر ان میں ’عربی ٹچ‘ کا اضافہ ان کے ذائقے کو چار چاند لگا دیتا ہے۔

مثال کے طور پر سموسے برصغیر میں افطار کے دسترخوان کا لازمی جز ہیں اور یہ رواج سعودی عرب میں بھی عام ہے مگر یہاں آلو اور قیمے کے علاوہ پنیر کے سموسے بھی ہوتے ہیں جو کہ اب پاکستانیوں میں بھی مقبول ہو رہے ہیں۔

ایک پاکستانی خاتون نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سموسوں، پکوڑوں وغیرہ کے علاوہ عربی ’شوربہ‘ ان کے افطار کے دستر خوان پر ضرور ہوتا ہے۔

عربی شوربہ پاکستانی شوربے سے قدرے مختلف اور سوپ کے قریب ہوتا ہے۔ یہ جسم کے لیے انتہائی فائدہ مند اور افطار کے لیے مناسب ڈش ہوتی ہے۔

اسی طرح مشروبات میں روح افزا اور جام شیریں کے بجائے یہاں افطار میں ’ویمٹو‘ پینے کا رواج ہے جو انگور، شہتوت، کشمش وغیرہ سے بنا ہوا ایک مشروب ہے اور پاکستانیوں میں بهی مقبول ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سعودی عرب میں رہنے والے پاکستانیوں کے رمضان گزارنے کے طریقہ کار میں عرب ثقافت اور عادات کا اثر کھانے پینے کی اشیا تک محدود نہیں ہے بلکہ برصغیر کے برعکس یہاں پاکستانی خواتین میں مساجد میں تراویح ادا کرنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔

سعودی عرب میں جہاں پاکستانی خاندانوں کے دستر خوان عرب اور پاکستانی پکوان سے مزین ہوتے ہیں وہیں کئی پاکستانی تارکین وطن ایسے بھی ہیں جن کے خاندان پاکستان میں ہی ہیں اور وہ روزگار کی سعی میں سعودی عرب میں اکیلے رہائش پذیر ہوتے ہیں۔

ان پاکستانیوں کے لیے پاکستانی ریستوران کسی نعمت سے کم نہیں جہاں انواع و اقسام کے دیسی کھانے دستیاب ہوتے ہیں۔

سجاد جو گذشتہ دو دہائیوں سے جدہ میں ایک پاکستانی مٹھائی کی دکان پر کام کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ’رمضان میں عصر سے مغرب تک لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور روزانہ کئی درجن سموسے پکوڑے اور جلیبی وغیرہ فروخت ہوتے ہیں۔‘

رمضان شروع ہوتے ہی پاکستانی دکانوں میں رمضان کا سامان آ جاتا ہے۔ پھینی، روح افزا اور دیگر اشیا وافر مقدار میں میسر ہوتی ہیں اور نمایاں کر کے سجائی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کو ان کی جانب راغب کیا جائے۔

ایک معروف پاکستانی ریستوران میں کام کرنے والے ظہور نے ہمیں بتایا کہ ’سحری میں بھی کئی لوگ پاکستانی ریستورانوں کا رخ کرتے ہیں جہاں وہی دیسی سحری دستیاب ہوتی ہیں جو کراچی، لاہور، گوجرانوالہ یا کسی بھی پاکستانی شہر میں ہوتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا