ماحولیاتی تپش: امیر ممالک کیا کر رہے ہیں؟

بدقسمتی سے ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ ایسا نہیں کہ کوئی ایک ملک انفرادی طور پر اسے حل کر سکے۔

عالمی حدت کی وجہ سے دنیا بھر میں گلیشیئر پگھل رہے ہیں (اے ایف پی)

عالمی حدت کے مضامین کے سلسلے کی اگلی کڑی میں خوش آمدید۔

اپنے پچھلے مضمون کے آخر میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ آنے والے مضامین میں عالمی حدت سے ممکنہ خطرات سے بچاؤ کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت، اقوامِ متحدہ کا کردار، ممالک کی اپنے طور پر کوششیں اور اسے کیسے نوجوانوں کے لیے ایک موقع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے پر بات ہو گی۔

پچھلے دو مضامین میں اس مسلے کی وجوہات اوراس سے پیدا ہونے والے خطرات پر سیر حاصل گفتگو کی جا چکی ہے بس یہاں صرف محمد اسماعیل میرٹھی کا ایک شعر پش کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے کہ وقت میں تنگی فراخی دونوں ہیں جیسے ربڑ کھینچنے سے بڑھتی ہے چھوڑنے سے سکڑ جاتی ہے۔

مشکل وقت میں جلد اورصحیح فیصلے کرنے سے برا وقت سکڑ جاتا ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو برا وقت نہ صرف بڑھ جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تباہی مچاتا ہوا پھیل کر صدیوں پر محیط ہو جاتا ہے۔

بات اب وہاں سے شروع کرتے ہیں جب ترقی یافتہ ممالک کو اس عالمگیر مسئلے کی سنگینی کا احساس ہونا شروع ہوا اور دھیرے دھیرے وہ ممالک بھی جو اس کی ہولناکی کو نظرانداز کر رہے تھے اب دیگر ممالک کی مانند اسے سنجیدگی سے لینے لگے۔

پھر کچھ یوں ہوا کہ دسمبر 2015 میں پیرس میں ہونے والی اقوامِ متحدہ کی موسمیات سے متعلق کانفرس میں پیرس معاہدہ طے پایا گیا۔ جو چار نومبر 2016 سے نافذ العمل ہوگیا۔ اور 25 جنوری 2021 تک اقوامِ متحدہ کے تحت اس معاہدے میں 190 ممالک شامل بھی ہو گئے۔

اس پیرس معاہدے کے مطابق ایک ایسا بنیادی ڈھانچہ فراہم کیا گیا جس سے موسمی حالات میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بچا جا سکے۔ اس معاہدے کے تحت مجموعی عالمی حدت میں اضافے کی حد کو کم کر کے دو ڈگری سیلسیئس سے نیچے رکھنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔

مختلف تحقیق کاروں اور سائنس دانوں کے مطابق اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس صدی کے اختتام تک موسمیاتی تبدیلوں کے دنیا بھرمیں شدید منفی نتائج ظاہر ہو سکتے ہیں۔

اس معاہدے کے مطابق تمام ممالک اپنے اپنے ملکوں میں حالات کا جائزہ لینے کے بعد نقصان دہ گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور اس کا متبادل تلاش کرنے کا لائحہ عمل تیار کریں گے اور جن ممالک کو اس پر عملدرآمد میں مشکلات کا سامنا ہو اسے ترقی یافتہ یا امیر ممالک مالی اور تکنیکی معاونت فراہم کریں گے۔

یہ تو وہ بنیادی قدم تھا جو اقوامِ متحدہ نے اٹھایا اور اس کے دائرہِ اختیار میں موجود ممالک نے پیروی کرنے کی ہامی بھی بھر لی۔ اب ذرا ان ممالک کا جائزہ لیتے ہیں جنہوں نے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد کیا کیا۔

کیوں کہ ہمارے قاری اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اقوامِ متحدہ کا کن کن ممالک پر زور چلتا ہے اور وہ کون سے ممالک ہیں جو اقوامِ متحدہ کو اپنے زور پر چلاتے ہیں، کیوں کہ ماضی کے کئی ایسے معاہدے موجود ہیں جن پراقوامِ متحدہ کا آج تک عملدرآمد کروانا تو دور کی بات ان کا ذکر کرتے ہوئے بھی اس کے پر جلتے ہیں۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ ہے۔

ہاں تو ہم بات کر رہے تھے ان ممالک کی کاوشوں کی جو انہوں نے اس معاہدے اور معاملے کی سنجیدگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے ملک میں شروع کیں۔

کسی بھی ملک میں پہلے سے موجود قوانین میں تبدیلی یا نئے قوانین بنانے کے لیے قانون سازی کا عمل ضروری ہوتا ہے اور قانون سازی اس وقت کی جاتی ہے جب آپ تمام حالات کا جائزہ لے کر مثبت تبدیلی کی طرف جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

برطانیہ، ناروے، فرانس اور نیوزی لینڈ نے اپنے موسمیاتی قوانین جنہیں ’کلائمیٹ‘ لا کہا جاتا ہے اس میں 2050 تک اپنے ملکوں کو ہر طرح کی مضر گیسوں سے پاک کرنے کا اعادہ کیا۔ جس میں انہوں نے ایسے قوانین بنائے جن سے ایسے مواد کے استعمال کا خاتمہ ہو سکے جو مضر گیسوں کے اخرج کا باعث بنتے ہیں اور گرین ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر زور دیا، جس سے ماحول کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

ان قوانین کو بناتے وقت انہوں نے تمام شعبہ ہائے زندگی خاص طور پر صنعتی شعبے کو شامل کیا جہاں مصنوعات کی تیاری اور پیکنگ میں ایسا ہی مواد استعمال ہوتا ہے، تاکہ ان قوانین کو عمل میں لانا ممکن ہو۔

امریکہ جو کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اس معاہدے سے الگ ہو گیا تھا اب جو بائڈن کے امریکی صدر بننے کے بعد پھر سے اس معاہدے میں شامل ہو چکا ہے۔ امریکہ نے بھی 2035 تک کاربن کی کثافت سے پاک سو فیصد بجلی بنانے اور 2050 تک اپنی معیشت سے مضر گیسوں کے خاتمہ کا عزم کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے ساتھ ہی امریکی وفاق نے پسماندہ کمیونیٹیز کو فائدہ پہنچانے کے لیے آب و ہوا اور صاف توانائی کے حصول کے لیے 40 فیصد سرمایہ کاری کا بھی اعلان کر دیا ہے۔

چین نے 2020 میں اس بات کا فیصلہ کیا تھا کہ وہ 2060 تک مضرِ صحت گیسوں سے چھٹکارا پالے گا۔ چین نے 2016 سے کوئلے کی کان کنی کی صلاحیت میں چار کروڑ ٹن کمی کر دی جس کا مقصد آنے والے سالوں میں اسے مزید کم کرنا ہے۔ چین بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت میں بھی دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔

اس کا آٹو سیکٹر، جدت کو آگے بڑھاتے ہوئے دنیا بھر میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی لاگت کو کم کر کے دوسرے شعبوں پر مثبت اثر ڈال رہا ہے۔

یہاں ہم نے کسی حد تک ذکر کیا ترقی یافتہ ممالک کا جو گلوبل وارمنگ کے خطرے کو سمجھتے ہوئے اپنے ملکوں کو اپنے باسیوں کے لیے محفوظ اور بہتر بنانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔

لیکن بدقسمتی سے یہ مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ اس پر انفرادی طور پر قابو پایا جا سکتا ہو یہاں تو مشکل یہ ہے کہ آپ کی لاکھ احتیاط کے باوجود اگر آپ کا پڑوسی بے فکرا نکلا تو اس کی لاپروائی کی وحہ سے آنے والی آفت آپ کے گھر کو بھی برباد کر سکتی ہے۔

اگلے مضمون میں بات ہوگی ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی اور خاص طور پر پاکستان کی، جہاں خود ساختہ اندرونی مسائل اتنے ہیں کہ ہمیں باہر سے آنے والی کسی مشکل کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔

بقول شخصے جس ملک میں عمومی طور پر دکان کھلنے کا وقت دوپہر 12 بجے کے بعد کا ہو وہاں لوگوں کے دماغ کھلنے کے وقت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ