بزدار کی واپسی

خاصا عرصہ منظرِ عام سے دور رہنے کے بعد اب سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب دوبارہ سامنے آئے ہیں۔

تحریک انصاف نے پنجاب میں جلد انتخابات کے لیے سڑکوں اور عدالت میں جنگ لڑی، لیکن بزدار مسلسل منظر سے غیر حاضر رہے (عثمان بزدار فیس بک)

2018 کے انتخابات کے بعد لگ بھگ ساڑھے تین سال پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر رہنے والے عثمان بزدار اپنے منصب سے الگ ہونے کے بعد سیاسی منظر نامے سے دور ہی رہے۔ 

پنجاب میں گذشتہ لگ بھگ ساڑھے چار سالوں میں سے ساڑھے تین سال ایک شخصیت کا بہت چرچا رہا اور وہ تھے اس صوبے کے سابق وزیراعلی عثمان بزدار۔ 

لیکن مارچ 2022 میں اپنے منصب سے مستعفی ہونے کے بعد عثمان بزدار منظر سے غائب ہو گئے اگر نظر آئے بھی تو صرف عدالت میں ان مقدمات میں پیشی کے وقت جن کا ان کو سامنا تھا۔ 

ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب میں جلد انتخابات کے لیے سڑکوں اور عدالت میں جنگ لڑی، لیکن بزدار مسلسل منظر سے غیر حاضر رہے۔

 کئی دنوں کی سماعت کے بعد منگل کو جب سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات سے متعلق فیصلہ سنایا تو سابق وزیراعلیٰ کی ایک جھلک ٹوئٹر پر نظر آئی جہاں انہوں نے اپنے پیغام میں لکھا کہ ’میرا ہمیشہ سے یہی موقف رہا کہ تمام فیصلے آئین و قانون کے مطابق ہونے چاہییں۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ ’آئین پاکستان اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی پاسداری کرتے ہوئے صاف شفاف الیکشن کروا کر ہی ملک کو موجودہ سیاسی و معاشی بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔‘ 

بہت سوں کی طرح اب عثمان بزدار کی توقعات شفاف انتخابات سے ہیں، انتخابات جلد یا بدیر ہو ہی جائیں گے لیکن سابق وزیر اعلیٰ کا مستقبل کیا ہو گا یہ واضح نہیں کیوں کہ بظاہر ان کی جماعت کے بہت سے رہنما بھی بزدار دور سے خوش نہیں ہیں۔ 

خیر صرف عثمان بزدار ہی منظر سے غائب نہیں رہے بلکہ ان کے بعد بننے والے دو وزرائے اعلی چوہدری پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز بھی کہیں نظر نہ آئے۔ 

اب اسے پنجاب کی بدقسمتی کہیں یا کچھ، اس کی تشریح آسان نہیں۔ لیکن آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پر حکمرانی کرنے والے حالیہ تین وزرائے اعلیٰ تاحال تو متحرک نہیں ہوئے جس سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ شاید ان کی جماعتیں تو انتخابات کے لیے تیار ہیں لیکن وہ نہیں۔ 

عثمان بزدار کے برعکس چوہدری پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز شریف کا معاملہ کچھ اور ہے، ان دونوں کا بڑے سیاسی گھرانوں سے تعلق ہے۔ 

چوہدری پرویز الٰہی تو حال ہی میں تحریک انصاف میں شامل ہو گئے جہاں انہیں صدر کا منصب بھی مل گیا لیکن ان کے اختیارات کیا ہوں گے، شاید وہ خود بھی نہیں جانتے۔ 

جب کہ حمزہ شہباز تو وزیراعظم شہباز شریف کے بیٹے اور اس وقت مرکز میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما ہیں اس لیے پرویز الٰہی اور حمزہ کی جنگ تو کی جماعت یا خاندان لڑ لے گا لیکن عثمان بزدار کو اب کی بار یہ جنگ خود ہی لڑنا ہو گی۔ 

 

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ