انڈین آئیڈل کے فاتح رشی سنگھ میں لوگ ارجیت سنگھ کی جھلک دیکھنے لگے

2005 میں ارجیت روتے ہوئے ایسے ہی ایک شو سے باہر نکلے تھے اور اب وہ شو کا فائنل جیت چکے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اوریجنل کے ہوتے ہوئے کاپی کو کون پوچھے گا؟

اپنے مستقبل کے سپنوں کا ذکر کرتے ہوئے رشی سنگھ کہتے ہیں کہ ’میں اب اپنے آئیڈیل ارجیت سنگھ سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں ان کا دیوانہ ہوں‘ (انڈین آئیڈل ٹوئٹر اکاؤنٹ)

21 سالہ رشی سنگھ نے انڈین آئیڈل سیزن 13 کے دوران ’کیسریا‘ اور ’میرے یارا‘ سمیت ارجیت سنگھ کے بہت سے گیت گائے اور اب لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو ان میں مستقبل کا ارجیت سنگھ نظر آ رہا ہے۔

2005 میں ارجیت روتے ہوئے ایسے ہی ایک شو سے باہر نکلے تھے اور اب وہ شو کا فائنل جیت چکے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اوریجنل کے ہوتے ہوئے کاپی کو کون پوچھے گا؟

تقریباً سات ماہ پر محیط سُر اور اعصاب کی شدید جنگ اختتام کو پہنچی۔ انڈین آئیڈل سیزن 13 کے فائنل تک پہنچنے والوں میں رشی سنگھ، بدیپتا چکرورتی، چراغ کوتوال، سوناکشی کر، شیوم سنگھ اور دیبوسمیتا رائے شامل تھے، جہاں ایودھیا سے تعلق رکھنے والے نوجوان رشی سنگھ نے میدان مار لیا۔ انہیں ٹرافی کے علاوہ 25 لاکھ نقد اور ایک گاڑی انعام میں دی گئی۔

ایک معمولی پس منظر کا حامل لڑکا جو سات برس کی عمر سے مندر میں بھکتی گیت گا رہا تھا اچانک انڈین آئیڈل کے سٹیج سے شہرت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ محض انسٹاگرام پر انہیں فالو کرنے والوں کی تعداد 10 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔

نئے میدان میں اتر کر رشی کو کیسا محسوس ہوا انہوں نے انڈین میڈیا کو اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں تفصیل سے بتایا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’پہلی بار کسی سٹیج پر بالی وڈ کا گیت گانا بالکل ہی ایک مختلف زون تھا۔ جب میں یہاں (انڈین آئیڈل 13) میں آیا تو مجھے یہ کرنا پڑا۔ میں نے خود کو ایک پیشہ ور (فنکار) کی طرح محسوس کیا۔‘

رشی سنگھ نے انڈین آئیڈل کے دوران یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ اپنے ماں باپ کی اصل اولاد نہیں بلکہ انہیں گود لیا گیا تھا۔ ’میں اپنے والدین کا خون نہیں ہوں، لیکن اگر میں ان کے ساتھ نہ ہوتا تو شاید آج اس مقام تک نہ پہنچ پاتا۔ میں نے زندگی میں کتنی غلطیاں کی ہیں۔ میں اپنے والدین سے ان تمام غلطیوں کی معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کہاں ہوں گا، لیکن اگر میں ان کے ساتھ نہ ہوتا تو میں اس مرحلے تک کبھی نہ پہنچ پاتا۔‘

اس کے بعد رشی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور ان کے والدین بھی سٹیج پر آ گئے۔ یہ ایک جذباتی لمحہ تھا۔

رشی سنگھ کی زندگی میں ایک جذباتی لمحہ وہ بھی تھا جب ویراٹ کوہلی نے انسٹاگرام پر ان کی آواز سن کر انہیں میسج کیا۔ بعد میں مقابلے کے دوران ہریتک روشن بھی انہیں سننے کے لیے آئے، جن کے ساتھ ان کا بیٹا بھی موجود تھا۔ ہریتک روشن نے بتایا کہ ’میرا بیٹا رشی کا پرستار ہے اور اب میری خواہش ہے کہ رشی میرے لیے پلے بیک دیں۔‘

اگرچہ شروع میں رشی کے والدین انہیں ڈاکٹر یا انجینیئر بنانا چاہتے تھے مگر بعد میں اپنے بیٹے کے شوق کو دیکھ کر وہ حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ اس حوالے سے رشی کہتے ہیں کہ ’میرا پورا خاندان اب بھی یہ دیکھ کر حیران ہے کہ ایک ایسے گھر میں جہاں کسی کو بھی موسیقی کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا وہاں میں اتنا اچھا گا سکتا ہوں۔ مختصر یہ کہ میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جہاں صرف میں سُر میں ہوں ورنہ سب بے سُرے ہیں۔

’جب میرے خاندان کو معلوم ہوا کہ میں انڈین آئیڈل جیسے ریئلٹی شو میں شرکت کرنے جا رہا ہوں تو انہوں نے مجھے صرف ایک بات بتائی کہ مجھے بس اپنا 100 فیصد دینا ہے اور آخر تک پہنچنا ہے۔‘

اپنے مستقبل کے خوابوں کا ذکر کرتے ہوئے رشی سنگھ کہتے ہیں کہ ’میں اب اپنے آئیڈیل ارجیت سنگھ سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں ان کا دیوانہ ہوں۔‘

 اس کے علاوہ اب وہ سٹوڈیو اور پلے بیک سنگنگ کی دنیا میں اپنا جادو جگانے کے لیے بھی بے تاب ہیں۔ رشی کی آواز ارجیت سے بہت ملتی جلتی ہے۔ ارجیت ان کے آئیڈیل بھی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس سے انہیں فائدہ ہوتا ہے کہ نقصان۔

ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ سمن کلیان پور کی آواز لتا کی آواز سے بہت ملتی تھی۔ یہاں تک کہ ایس ڈی برمن کے گیت ’نہ تم ہمیں جانو‘ میں یہ فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ لتا گا رہی ہیں یا سمن کلیان پور۔ ایسی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں، لیکن اسی چیز کا سمن کو نقصان ہوا۔ جب لتا خود موجود ہیں تو کوئی موسیقار اپنے بہترین گیت ان کے بجائے سمن کو کیوں دے گا۔

ہاں جب جب موسیقار اور لتا کی چپقلش ہوئی یا لتا رفیع لڑائی کی وجہ سے ڈوئیٹ میں رفیع کی آواز ناگزیر ہوئی تب تب سمن کلیان پور کو طلب کیا گیا۔

انہیں کچھ بہت خوبصورت گیت ملے مگر وہ اپنی پہچان نہ بنا پائیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے برعکس آشا بھوسلے کی آواز مختلف تھی اور انہیں اوپی نیر نے پہلی چیزیں یہی سمجھائی کہ لتا کو کاپی نہیں کرنا بلکہ اپنی الگ پہچان بنانی ہے، ایک منفرد سٹائل جو صرف تمہارا اپنا ہو۔ 

ایک تو رشی کی آواز ارجیت سے ملتی جلتی ہے اور پھر وہ ان سے حد درجہ متاثر ہیں۔ وہ انہی کے سٹائل کو پوری طرح کاپی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ارجیت سنگھ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ حد سے زیادہ لاپروا ہیں، کئی کئی دن فون بند رکھنا اور پتہ ہی نہ لگنے دینا کہ وہ کہاں ہیں۔

اس چیز کا مستقبل میں رشی کو فائدہ ہو سکتا ہے مگر زیادہ سے زیادہ اتنا جتنا سمن کلیان پور کو ہوا۔

کم از کم بالی وڈ کی حد تک ہم 100 فیصد یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی پلے بیک سنگر نے اپنا نام تبھی بنایا جب وہ اپنے ساتھ اپنا الگ سٹائل لے کر آیا۔

طلعت، مکیش، رفیع، کشور، ادت، ارجیت، موہت وغیرہ سب کا اپنا انداز ہے مگر اپنے وقت کے ایک مشہور گلوکار کو کاپی کرنا بالی وڈ کی تاریخ رہی ہے۔ ایک بھیانک لطیفہ یہ بھی ہے کہ 70 کی دہائی کے آغاز میں جب کشور کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا تب کچھ عبقری رفیع صاحب کو سمجھا رہے تھے کہ آپ کشور کے انداز میں کیوں نہیں گاتے۔ 

رشی کو بھی ایسے بہت سے مشورے ملیں گے اور اگر وہ ارجیت کے اثر سے نہ نکل سکے تو ان کا پلے بیک سفر شروع ہوتے ہی اختتام کو پہنچ چکا ہو گا، ایک اور شبیر کمار تاریخ کے پنوں میں غائب ہو جائے گا۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ