شام سے متعلق سعودی عرب کی میزبانی میں عرب ملکوں کا اجلاس

خلیج تعاون کونسل کے چھ رکن ممالک شام کی طویل علاقائی تنہائی ختم کرنے پر غور کے لیے جدہ میں ملاقات کرر ہے ہیں۔

سعودی شاہی محل کی جانب سے 16 جولائی، 2022 کو جاری ہونے والی اس تصویر میں خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کے حکام جدہ میں ایک اجلاس میں شریک ہیں (اے ایف پی)

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ سعودی عرب شام کی تنہائی ختم کرنے پر غور کے لیے جمعے کو جزیرہ نما عرب میں واقع ممالک کے علاقائی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔

آج خلیج تعاون کونسل کے چھ رکن ممالک بشمول بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ مصر، عراق اور اردن کے وزرا اور اعلیٰ حکام جدہ میں ملاقات کر رہے ہیں۔

مذاکرات میں شام کی عرب لیگ سے معطلی کا معاملہ زیر غور آئے گا۔

اس سے قبل شام کے وزیر خارجہ غیر علانیہ دورے پر سعودی عرب پہنچے تھے، جو 2011 میں شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد ان کا پہلا دورہ تھا۔

سات برس تک تعلقات کشیدہ رہنے کے بعد ایران اور سعودی عرب نے چین کی ثالثی میں 10 مارچ کو تاریخی معاہدے کا اعلان کیا، جس کے بعد بدھ کو ایک ایرانی وفد سعودی عرب پہنچا تاکہ سفارتی مشن دوبارہ کھولنے کی راہ ہموار کر سکے، جبکہ اس سے قبل سعودی ٹیم نے ایران کا دورہ کیا تھا۔

یمن میں سعودی سفیر نے اس ہفتے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے ساتھ بات چیت کی، جس کا مقصد 2015 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کو ختم کرنا تھا۔

اسی مہینے سعودی اور ایرانی وزرائے خارجہ نے بیجنگ میں ملاقات کے دوران شورش زدہ خطے میں سلامتی اور استحکام کے لیے مل کر کام کرنے کا عہد کیا۔

بدھ کو قطر اور اس کے پڑوسی ملک بحرین نے طویل عرصے سے جاری سفارتی تنازع کو ایک طرف رکھتے ہوئے تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے پر اتفاق کیا۔

صدر بشار الاسد حکومت کے 2011 میں جمہوریت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے کے بعد شام کی عرب لیگ کی رکنیت معطل کر دی گئی تھی۔

قطر نے جمعرات کو کہا کہ شام کی عرب ممالک کی تنظیم میں واپسی کی کوئی تجویز نہیں۔

قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا ’کچھ بھی تجویز نہیں کیا گیا۔ یہ تمام قیاس آرائیاں ہیں۔‘

بدھ کو ایک سعودی بیان کے مطابق شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد اور ان کے سعودی ہم منصب نے دمشق کی تنہائی کو ختم کرنے کے لیے ضروری اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔

ریاض میں مقیم ایک سفارت کار نے اے ایف پی کو بتایا کہ اگرچہ 22 ممالک پر مشتمل عرب لیگ، جس کا آئندہ ماہ سعودی عرب میں اجلاس ہو رہا ہے، اتفاق رائے سے فیصلے کرتی ہے، لیکن متفقہ معاہدے کا امکان نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے قطر کو الگ رکھتے ہوئے کہا ’اس اجلاس کا مقصد شام پر خلیجی اختلافات کو ہر ممکن حد تک دور کرنا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں یہ نہیں کہوں گا کہ متفقہ موقف اختیار کیا جائے کیوں کہ ایسا نہیں ہو گا لیکن سعودی کم از کم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس معاملے پر کسی رائے شماری میں قطر، شام کی عرب لیگ میں واپسی پر اعتراض نہ کرے۔‘

ایک اور سفارت کار نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ شام کے وزیر خارجہ مقداد، شام کا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے اجلاس میں شریک ہوں۔

مذاکرات سے قبل متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید آل نہیان مصرکے صدر عبدالفتح السیسی سے بات چیت کے لیے قاہرہ چلے گئے۔

بعض دیگر عرب حکومتوں کے برعکس قاہرہ نے جنگ کے بعد کبھی دمشق کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر منقطع نہیں کیے تاہم دو طرفہ تعلقات محدود ہو گئے۔

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے شام کو عرب ممالک کی تنظیم میں واپس لانے کی ذمہ داری کی قیادت کی ہے۔

شیخ محمد نے گذشتہ ماہ کہا کہ دمشق کو دوبارہ وسیع علاقے کے ساتھ جوڑنے کا وقت آ گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا