منکی پاکس: سندھ، بلوچستان میں ہائی الرٹ، آئسولیشن وارڈ قائم

صوبائی حکام نے دونوں صوبوں کی ہسپتالوں میں متوقع مریضوں کے لیے علیحدہ وارڈز قائم کرنے کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔

عالمی صحت کے ادارے ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ مرض منکی پاکس نام کے وائرس سے ہوتا ہے جو پہلی بار ڈنمارک میں 1958 میں دریافت ہوا تھا (اے ایف پی فائل)

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منکی پاکس یا ایم پاکس کے دو مثبت کیس رپورٹ ہونے کے بعد سندھ اور بلوچستان حکومتوں نے صحت کے محکموں میں ہائی الرٹ جاری کر دیے۔

صوبائی حکام نے دونوں صوبوں کی ہسپتالوں میں متوقع مریضوں کے لیے علیحدہ وارڈز قائم کرنے کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔

سعودی عرب سے پاکستان آنے والے شخص میں منکی پاکس کی علامات کے باعث اس شخص کو پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں طبی معائنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

متاثرہ شخص کے ساتھ طیارے میں بیٹھے ہوئے دوسرے شخص میں بھی علامات ظاہر ہوئیں اور جب ان کا ٹیسٹ کروایا گیا تو ان میں بھی منکی پاکس وائرس کی تصدیق ہوئی۔

ادھر ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز بلوچستان نے صوبے کے بڑے ہسپتالوں کو ہائی الرٹ جاری کرتے ہوئے ایم پاکس کیسز کے لیے علیحدہ وارڈز قائم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ 

نوٹیفکیشن کے مطابق ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز بلوچستان نے بولان میڈیکل کمپلیکس ہاسپیٹل کوئٹہ، سنڈیمن پرونشل ہسپتال کوئٹہ، شہید بےنظیر بھٹو ہسپتال، مفتی محمود ہسپتال، شیخ زید ہسپتال کے علاوہ صوبے کے تمام ڈویژنل، ضلعی، سول ہسپتالوں میں علیحدہ وارڈ قائم کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ڈائریکٹر جنرل سندھ ہیلتھ سروسز نے بھی صوبے کے متعدد ہسپتالوں کو ہائی الرٹ جاری کرتے ہوئے انہیں ایم پاکس کیسز سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ڈائریکٹر جنرل سندھ ہیلتھ سروسز کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر یا جی پی ایم سی، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ یا این آئی سی ایچ، ڈاکٹر روتھ فاؤ سول ہسپتال اور سندھ گورنمنٹ لیاری جنرل ہسپتال کراچی کو ایم پاکس کیسز سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے اور علیحدہ وارڈز قائم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ 

اس کے علاوہ لیاقت یونیورسٹی ہسپتال حیدرآباد، شہید بینظیر آباد پیپلز میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال نواب شاہ، غلام محمد مہر میڈیکل کالج سکھر، چانڈکا میڈیکل کالج ہسپتال لاڑکانہ، سول ہسپتال خیرپور، گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز خیرپور، سید عبداللہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سیہون اور جیکب آباد انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو بھی ہدایت کی گئی ہے۔ 

ڈائریکٹر جنرل سندھ ہیلتھ سروسز کے نوٹیفکیشن میں تمام ہسپتالوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ایم پاکس کے مشتبہ یا تصدیق شدہ کیسوں کے انتظام کے لیے مکمل اقدامات کیے جائیں، جن میں مریضوں کی محفوظ و موثر دیکھ بھال کے لیے مخصوص جگہ یا آئی سولیشن وارڈز قائم کیے جانا بھی شامل ہے۔

تمام ہسپتالوں کی انتظامیہ کو کسی بھی مشتبہ کیس کی نشان دہی کے لیے چوکنا رہنے، 24 گھنٹے سٹاف اور مریضوں کے ہاتھوں کی صفائی کی سہولیات اور ذاتی حفاظتی آلات سمیت انفیکشن کنٹرول کے مناسب اقدامات کی ہدایات دی گئی ہیں۔ 

اس کے علاوہ ایم پاکس کے مریضوں کو آئسولیٹ کرنے کے لیے پانچ سے دس کمروں کے ساتھ آئسولیشن وارڈز قائم کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ 

ایئرپورٹس پر ہائی الرٹ

پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان سیف الرحمن کے بیان کے مطابق ممکنہ منکی پاکس کیسز اور بارڈر ہیلتھ سروسز (بی ایچ ایس) ہدایات کی روشنی میں ایئرپورٹ پر تمام اتنظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ 

بیان کے مطابق تمام بین الاقوامی ایئرپورٹس پر ایئرپورٹ مینیجرز منکی پاکس سے بچاؤ اور روک تھام سے متعلق اقدامات کو موثر بنانے کے لئے باقاعدگی سے دیگر ایجنسیوں کے ساتھ رابطے کر رہے ہیں۔ 

انتظامات کی تفصیل

  •  کسی فلائٹ پر مشتبہ منکی پاکس مسافر کی صورت میں مسافر کے لیے ایئرپورٹ سے باہر جانے کے لیے معمول کے راستے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
  •  ایئرلائن مسافر کی امیگریشن حفاظتی تدابیر کے ساتھ کرائے گی جس میں دستانے اور ماسک پہننا لازمی ہو گا۔ 
  • بارڈر ہیلتھ سروسز(بی ایچ ایس) اور ائیرلائن سٹاف (سی اے اے) ایمبولینس میں مریض کو ہسپتال منتقل کریں گے۔
  • مشتبہ یا کنفرم کیسز زیادہ ہونے کی صورت میں ایئرلائین مریضوں کو کوارنٹائین فسلٹی منتقل کرنے کی زمہ دار ہوگی جبکہ بی ایچ ایس تعاون فراہم کرے گی۔ 
  • فلائیٹ پر 'ڈی پورٹیز' ہونے کی صورت میں ایئرلائین (بی ایچ ایس) کو اپنے سٹیشن مینیجر کے ذریعے لینڈنگ سے 3 گھنٹے پہلے آگاہ کرے گی۔ 
  • مشتبہ یا کنفرم کیسز کو جہاز کے پچھلے حصے میں منتقل کیا جائے جہاں ان کو ایک سیٹ کے وقفے سے بٹھایا جائے گا۔ 
  • گراونڈ ہینڈلنگ ایجنسیز ویل چئیر ہینڈلرز کو ماسک اور دستانے فراہم کر رہی ہیں۔ 
  • بیگیج ہینڈلرز جہاز سے اترنے والے سامان کو فیومیگیشن کے ذریعے ڈس انفیکٹ کر رہے ہیں۔ 
  • بیان کے مطابق احتیاطی تدابیر کے تحت لگیج ایریا، میڈیکل انسپیکشن ایریا، ایف آئی اے کاونٹرز، کوریڈورز، ایسکلیٹرز اور تمام متصل ایریا بشمول ٹوائلیٹس پر جراثیم کش سپرے کیا جا رہا ہے۔
  • بارڈر ہیلتھ سروسز (بی ایچ ایس) ایئرپورٹس پر پہلے سے موجود ہے اور جلد کارگو ایریاز میں جگہ فراہم کر دی جائے گی۔ 
  • پورٹرز دستانے اور ماسک کی پابندی کریں گے اور ٹرالیز کو باقاعدگی سے صابن اور پانی سے دھویا جا رہا ہے۔
  • بی ایچ ایس اور سی اے اے سٹاف لفٹس اور ہینڈ ریلز کی ڈس انفیکشن کو یقینی بنا رہے ہیں۔
  • سی اے اے ترجمان کے مطابق سی اے اےایئرکرافٹ ویسٹ کو پہلے سے طے شدہ ایس او پیز کے تحت ٹھکانے لگائے جانے کی کڑی نگرانی کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ سول ایوی ایشن کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسافروں کے سامان پر جراثیم کُش سپرے کیا جا رہا ہے۔ 

منکی پاکس کرونا سے کم خطرناک: ’جراثیم کُش سپرے پیسے کا ضیاع‘

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے رکن ڈاکٹر قیصر سجاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’منکی پاکس کا وائرس متاثرہ شخص سے دوسرے شخص ساتھ بیٹھنے یا خراب جلد کے چھونے سے ہو سکتا ہے۔‘

’یہ وائرس جسم میں خراب جلد، سانس کی نالی، یا لعابی جھلیوں جیسے آنکھ، ناک اور منہ کے ذریعے داخل ہو سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق :’یہ بھی ایک وائرس ہے مگر کرونا (کورونا) وائرس کی نسبت زیادہ خطرناک نہیں ہے۔ اس وائرس سے عام طور پر متاثرہ فرد کے جسم پر چکن پاکس یا خسرہ کی طرح جسم پر پھنسیاں نکل آتی ہیں، جن سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق ’اس وائرس سے اموات کی شرع کوویڈ وائرس کے مقابلے میں بہت کم ہے اور متاثر مریض عام طور پر دو سے تین ہفتوں میں ٹھیک ہوجاتے ہیں۔‘

محکمہ صحت سندھ کی جانب سے ایم پاکس پر نامزد فوکل پرسن ڈاکٹر محمد آصف سید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’اس وائرس سے بچنے کے لیے ہر چیز پر جراثیم کش سپرے صرف پیسوں کا ضیاع ہے۔‘

ان کے مطابق : ’اگر کوئی فرد کسی ایسے ملک سے آیا ہو جہاں اس وائرس کے بہت سے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں تو ان کے سامان پر جراثیم کش سپرے کیا جائے۔ ہر ایک مریض یا ہر چیز کو سپرے کرنے کے لیے ایک خطیر رقم چاہیے، جس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔‘

عالمی صحت کے ادارے ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ مرض منکی پاکس نام کے وائرس سے ہوتا ہے جو پہلی بار ڈنمارک میں 1958 میں دریافت ہوا تھا۔

انسانوں میں اس وائرس کی پہلی تشخیص 1970 میں کانگو میں ہوئی تھی، جبکہ یہ وائرس عالمی طور پر وبا کی صورت میں 2022 سے سامنے آیا ہے۔ 

ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ وائرس آمنے سامنے بات چیت کرنے، جلد کا جلد سے ملنا، بوسہ دینے، تھوک کے ذرات منہ میں جانے سے پھیلتا ہے۔ اس وائرس کے باعث بخار، جسم پر پھوڑے نکلنا، سر درد، گلے کی سوجن، پٹھوں کا درد اور دیگر علامات ہو سکتی ہیں۔ 

ڈبلیو ایچ او کے مطابق یکم جنوری 2022 سے 24 اپریل 2023 کے دوران 111 ممالک میں 87 ہزار 113 مثبت کیس سامنے آ چکے ہیں جب کہ 130 اموات ہو چکی ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت