پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں وادی نیلم کے علاقے پھلاوئی میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب سیاحوں سے بھری ایک جیپ دریائے نیلم میں جا گری۔ حادثے کا شکار ہونے والے 14 میں سے پانچ افراد کو زندہ نکال کر ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ ایک شخص کی لاش بھی دریائے نیلم سے نکالی جا چکی ہے۔
آٹھ افراد تا حال لاپتہ ہیں اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق ان میں سے کسی کے بھی زندہ بچنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی ایم اے) کے ضلعی انچارج اختر ایوب کے مطابق دریا میں پانی کا بہاؤ کافی تیز ہے اور گاڑی کے کہیں کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
انہوں نے مزید بتایا: ’گاڑی اتنی بلندی سے گری ہے کہ اس کے کچھ حصے دریا کی دوسری جانب بکھرے ہوئے ہیں۔‘
سیاحوں کا تعلق لاہور کے ایک ہی خاندان سے بتایا جاتا ہے، جو وادی نیلم کے علاقے تاؤ بٹ کی سیر کے بعد واپس کیل کی طرف سفر کر رہے تھے کہ پھلاوئی کے قریب خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے سینکڑوں فٹ نیچے دریائے نیلم میں جا گری۔
حادثے کے مقام پر گاڑی کے کچھ ٹکڑے بکھرے پڑے ہیں جبکہ اس کا بڑا حصہ دریا میں ڈوب چکا ہے۔
جانوائی پولیس چوکی کے اہلکار امداد شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جیپ کے مقامی ڈرائیور، کنڈیکٹر اور تین سیاح زخمی حالت میں دریا کنارے ملے، جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا جبکہ ایک شخص کی لاش بھی مظفرآباد روانہ کردی گئی۔
ڈپٹی کمشنر نیلم سردار طاہر محمود کے مطابق تمام زخمیوں کو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کیل میں ابتدائی طبی امداد کے بعد سی ایم ایچ مظفرآباد ریفر کر دیا گیا، جن میں سے تین کی حالت تشویش ناک ہے۔
ڈپٹی کمشنر نے بتایا: ’واٹر ریسکیو کی پروفیشنل ٹیم بھی حادثے کی جگہ پہنچ گئی ہے اور فوج، انتظامیہ پولیس اور سینکڑوں کی تعداد میں مقامی رضاکار امدادی کارروائیوں میں شریک ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’حادثے والی جگہ پر پانی گہرا اور بہاؤ بہت تیز ہے، اس لیے امدادی کارروائیوں میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔‘
امدادی سرگرمیوں میں شریک ایک مقامی نوجوان ندیم منہاس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حادثہ ساڑھے آٹھ بجے کے قریب پیش آیا مگر اس علاقے میں ٹیلی فون سروس معطل ہونے کی وجہ سے حادثے کی بروقت اطلاع نہیں ملی اور امدادی کارروائیاں تاخیر سے شروع ہونے کی وجہ سے نقصان زیادہ ہوا۔
ندیم منہاس نے بتایا کہ ٹیلی فون سروس معطل ہونے کی وجہ سے حادثے کے اڑھائی گھنٹے بعد مساجد میں اعلان کے ذریعے مقامی لوگوں کو اطلاع دی گئی اور وہ حادثے کے مقام پر پہنچے۔
حادثے کا شکار ہونے والے نوجوان کون ہیں؟
سیاحوں کی جس گاڑی کو حادثہ پیش آیا، اس میں ڈرائیور اور کنڈیکٹر سمیت کل 14 افراد سوار تھے۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر دونوں مقامی ہیں۔ 12 سیاحوں میں سے آٹھ کا تعلق لاہور کے علاقے اچھرہ کے ایک ہی خاندان سے ہے جبکہ دیگر چار ان کے محلے دار اور دوست تھے اور ان سب کی عمریں 18 سے 32 سال کے درمیان ہیں۔
حادثے میں جان سے جانے والے نوجوان کی شناخت غلام میران ولد جاوید اقبال کے نام سے ہوئی ہے جبکہ زخمیوں میں ڈرائیور ابراہیم اور کنڈیکٹر رفیق کے علاوہ حسنین، محمد ضمیر اور معین احمد شامل ہیں۔
اسی طرح عمیر، شاہنواز، اظہر، بلال، ذیشان، ولید، رفیق اور رحیم لاپتہ ہیں، جن کی تلاش جاری ہے۔
حادثے میں زخمی ہونے والے نوجوان محمد ضمیر کے والد 60 سالہ محمد صفدر شیخ نے ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے دو بیٹے اپنے بھانجوں، بھتیجوں اور دوستوں کے ساتھ گذشتہ جمعرات کو لاہور سے نکلے اور پبلک ٹرانسپورٹ پر وادی نیلم کی سیر کو گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’راولپنڈی تک انہوں نے ٹرین پر سفر کیا اور وہاں سے آگے بس پر گئے۔ کیل پہنچ کر انہوں نے جیپ کرائے پر حاصل کی جو واپسی پر حادثے کا شکار ہو گئی۔ جب بھی ان سے رابطہ ہوتا وہ بتاتے کہ سفر کا بہت مزا آ رہا ہے۔‘
محمد صفدر شیخ نے مزید بتایا کہ تمام نوجوان لاہور میں ہی عینکوں اور رنگسازی کے کاروبار سے منسلک اور پچھلے کئی ماہ سے اس ٹور کے لیے پیسے جمع کر رہے تھے۔
ایک زخمی نوجوان حسنین کے بھائی طاہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دو ماہ بعد حسنین کی شادی طے تھی۔
طاہر نے بتایا کہ نیلم ویلی پہنچنے سے پہلے وہ ہر رروز کال کرتا تھا مگر نیلم ویلی پہنچ کر اس نے بس ایک دو بار ہی کال کی۔
بقول طاہر: ’آخری بار بھائی کی ویڈیو کال آئی تو وہ بہت خوش تھا۔ کہہ رہا تھا کہ سفر کا بہت مزا آ رہا ہے۔ ہم لوگ اڑنگ کیل سے آگے جا رہے ہیں۔ ایک آدھ دن میں واپس آ جائیں گے۔‘
حادثے میں لاپتہ نوجوان شاہ نواز کی شادی کو آٹھ سال ہوچکے ہیں اور ان کی کوئی اولاد نہیں۔
شاہ نواز کے کزن محمد عدیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سفر پر نکلنے سے قبل شاہ نواز نے اپنی اہلیہ سے کہا تھا کہ ’اس مرتبہ دوستوں کے ساتھ جا رہا ہوں، اگلی مرتبہ ہم دونوں ساتھ جائیں گے۔‘
محمد صفدر شیخ کے بقول ان نوجوانوں میں سے کوئی بھی پہلے کشمیر نہیں گیا تھا۔ یہ ان کا پہلا سفر تھا اور ان کے ساتھ کوئی مقامی گائیڈ بھی موجود نہیں تھا بلکہ وہ اپنے طور پر ہی سفر کر رہے تھے۔