میری ہوڈی پر صرف شیر نہیں، تیر اور بلا بھی ہے: علی ظفر

علی ظفر کی وہ قمیص جس نے فوراً سوشل میڈیا صارفین کی توجہ حاصل کر لی اور ساتھ ہی سوال اٹھنے لگے کہ کیا انہوں نے کسی خاص سیاسی جماعت کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے؟

علی ظفر نے سوشل میڈیا پر بحث کے بعد اپنی ایک ویڈیو جاری کی ہے (سکرین گریب/ علی ظفر)

پاکستانی گلوکار و اداکار علی ظفر ان دنوں کینیڈا میں موجود ہیں جہاں وہ مختلف کنسرٹ کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں اتوار کو ٹورنٹو میں ہونے والے ایک کنسرٹ سے پہلے ان کی پہنی گئی ایک قمیص خبروں کی زینت بن گئی اور لوگوں میں سیاسی بحث کا آغاز ہو گیا۔

ہوا کچھ یوں کہ کنسرٹ سے پہلے علی ظفر کی ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں انہوں نے ایک ہوڈی پہن رکھی تھی اور اس ہوڈی پر شیر کا نشان بنا جس کے ساتھ ’شیر آیا شیر آیا‘ بھی تحریر تھا۔

یہ تصویر سوشل میڈیا پر آتے ہی صارفین کی توجہ کا مرکز بن گئی اور ساتھ ہی یہ سوال اٹھنے لگے کہ کیا علی ظفر نے کسی خاص سیاسی جماعت کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے؟ 

واضح رہے کہ شیر کا نشان پاکستان مسلم لیگ ن کا انتخابی نشان ہے۔ 

علی ظفر کی سیاست میں شمولیت کی خبر اتنی بڑھی کہ گلوکار کو خود سوشل میڈیا پر آ کر وضاحت دینا پڑی۔ علی ظفر نے اپنی ایک اور ویڈیو کے ذریعے وضاحت دی کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

انہوں نے سب سے پہلے ٹویٹ میں اس ہوڈی کی مکمل تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’وینکوور میں اپنا فون آن کرتے ہی انہیں بے تحاشہ پیغام موصول ہوئے کہ کیا انہوں نے کوئی سیاسی پارٹی جوائن کی ہے؟‘

علی ظفر نے بتایا کہ ’سب سے پہلے، میں نے کل رات ٹورنٹو میں ہونے والے کنسرٹ میں سرخ رنگ کی جیکٹ پہنی تھی۔ لیکن جس تصویر کے بارے میں بہت زیادہ بات کی گئی وہ ایک ہوڈی ہے جو انہوں نے ’کنسرٹ سے پہلے ساؤنڈ چیک میں پہنی تھی جس میں مقامی علامتیں اور دیسی فقرے استعمال کیے گئے تھے۔ اسی ہوڈی میں بلا اور تیر بھی بنا ہوا تھا۔‘ 

اپنی ویڈیو میں علی ظفر نے خود وہ ہوڈی دکھائی اور ساتھ کیپشن لکھا کہ ’غلط ہیڈ لائن کے ساتھ شائع کی گئی تصویر کی اصل حقیقت یہ ہے اور ہر چیز کو بغیر تحقیق کیے سیاسی رنگ دینا اور متنازع بنانا مناسب نہیں۔‘ 

اس پر کئی صارفین کی جانب سے ان کا ساتھ دیا گیا تو کئی نے ان کی مخالفت بھی کی اور اسے پبلسٹی سٹنٹ قرار دیا۔ 

 صارف محمد ماجد نے لکھا کہ ’جناب ہمیں بول رہے ہیں سیایسی رنگ نہ دیں تو آپ نے یہ پہنی ہی کیوں جب نظر آرہا تھا اس پر سیاسی پارٹیوں کے نشان ہیں ۔‘ 

دوسری جانب ایک اور صارف علی نے کہا کہ’ افسوس کا مقام ہے کہ اس ملک میں فنکار بیچاروں کو وضاحت دینی پڑتی ہے ۔۔۔ بھائی جو جس کو مرضی سپورٹ کریں لوگ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ