جب دلیپ کمار نے اندرا گاندھی کو چپ کروا دیا

ایک محفل میں جب دلیپ کمار نے اندرا گاندھی کو لاجواب کیا تو جواہر لال نہرو نے بھی اپنی بیٹی کے مقابلے میں دلیپ کمار کا ہی ساتھ دیا۔

دلیپ کمار اور اندرا گاندھی (پبلک ڈومین)

اندرا گاندھی سانس لیے بغیر بولے چلے جا رہی تھیں اور ادھر دلیپ کمار کی یہ حالت تھی کہ وہ نشست پر پہلو پر پہلو بدلے جارہے تھے۔ تحمل اور صبر و برداشت کے ساتھ وہ اندرا گاندھی کی وہ باتیں بغور سن رہے تھے جو ان کے لیے ابتدا سے ناگوار بنتی جا رہی تھیں۔

یہ 60 کی دہائی کا تذکرہ ہے۔ دلیپ کمار وزیراعظم ہاؤس میں اس وقت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کے ساتھ سبزہ زار پر ناشتے پر مدعو تھے۔ جواہر لال نہرو کے پہلو میں اندرا گاندھی براجمان تھیں۔

اندرا گاندھی والد جواہر لال نہرو کے ساتھ ہر سیاسی، سماجی اور ثقافتی تقریبات میں نمایاں رہتیں۔ اندرا گاندھی کا انداز تمسخر اڑانے کا تھا جبھی دلیپ کمار اپنے چہرے کی تلخی اور اندرونی غصے کو پوشیدہ رکھنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ اندرا گاندھی کی گفتگو کا موضوع انڈین فلمیں تھا جو کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ ’آپ لوگ کیسی فلمیں بناتے ہیں؟ میں لندن گئی، پیرس گئی، ماسکو گئی، وہاں آرکسٹرا شوز دیکھے ہیں، فلمیں دیکھی ہیں اور سٹیج پلے بھی، کس قدر خوبصورت اور عمدہ ہوتے ہیں لیکن یہ انڈین فلموں کو کیا ہوگیا ہے؟ یہ دنیا سے اس قدر پیچھے کیوں ہیں؟‘

دلیپ کمار جو حال ہی میں موشن پکچر پروڈیوسرز گلڈ کے صدر چنے گئے تھے، اسی بنا پر خاصے سرگرم اور فعال تھے اور پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کے مسائل حل کرنے کے لیے اپنی کوشش کرتے رہتے تھے۔

انڈیا میں جب بھی کوئی قدرتی آفات آتیں تو دلیپ کمار ایسوسی ایشن کے صدر بننے سے پہلے بھی فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور اب تو ان کی اور ذمے داری بڑھ گئی تھی۔ دلیپ کمار کو احساس تھا کہ بطور اداکار ان کی ہی نہیں بلکہ دیگر ستاروں کی سماجی ذمے داری کیا ہے۔ دلیپ کمار کی ایک آواز پر یہ فنکار اکٹھے ہوتے اور مصیبت زدہ اور متاثرہ افراد کی امداد کے لیے ہر پل تیار رہتے۔

دلیپ کمار اندرا گاندھی کی مسلسل بلا جواز تنقید پر اب بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو رکھے ہوئے تھے۔ انہیں لگ رہا تھا کہ اندرا گاندھی ایک حد کو پار کرچکی ہیں اور اپنی غیر ضروری تنقید کے ذریعے فلم نگری کی تذلیل کر رہی ہیں۔

وہ تو بس یہی گردان کیے جا رہی تھیں کہ انڈین فلموں میں کہیں بھی انڈین ثقافت نظر نہیں آتی، یہ کس قسم کی فلمیں ہوتی ہیں۔

دلیپ کمار کے ضبط کا پیمانہ اب لبریز ہونے لگا اور آخر کار وہ لمحہ آ ہی گیا جب دلیپ کمار نے تہیہ کر لیا کہ اگر انہوں نے اب بھی اندرا گاندھی کی جلی کٹی تنقید کو برداشت کیا اور جواب نہ دیا تو یہ کسی بھی طور پر بے ادبی نہیں ہو گی۔

جبھی دلیپ کمار، اندرا گاندھی سے احتراماً گویا ہوئے، ’آپ کی باتوں کو میں پندرہ منٹ سے سن رہا ہوں۔ آپ نے جس پہلو کی طرف نشاندہی کی ہے وہ واقعی درست ہے۔ اس سے انکار کرنا بے وقوفی ہوگی۔ یہ زیادتی ہو گی کہ ہم کہیں کہ انڈین فلمیں بہت اعلیٰ ہیں، بہت معیاری ہیں اور بڑی ترقی یافتہ ہیں۔ بجا طور پر یہ مناسب بات نہیں ہو گی۔ بالکل آپ درست کہہ رہی ہیں لیکن یہ جو آپ کئی منٹ سے اسی موضوع پر گفتگو کر رہی ہیں کہ اس میں انڈین ثقافت کی ایک بھی جھلک نہیں ملی کیونکہ آپ کی تمام تر گفتگو انگریزی زبان میں تھی۔ آپ مستقل انگریزی بول رہی تھیں۔‘

دلیپ کمار سانس لینے کے لیے رکے اور پھر ایک بار اپنے مخصوص انداز میں گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے بولے، ’اس وقت ہم سڑکیں بنا رہے ہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ زرعی اصلاحاتی پروگرام شروع کیے جائیں۔ ہم جستجو میں ہیں کہ ہسپتال بنائے جائیں۔ بین الاقوامی تعلقات کو بہتر کیا جائے۔ حالت یہ ہے کہ انڈین عوام کے پاس پینے کا صاف پانی تک نہیں اور تعلیم کے میدان میں بھی ہم خاصے پیچھے ہیں۔

’یہ کہنا کہ صرف انڈین فلمیں ہی غیر معیاری ہیں، کسی صورت درست نہیں۔ ہماری سڑکیں خراب ہیں۔ تعلیمی نظام ناقص ہے۔ زرعی اعتبار سے ہم کچھ نہیں کر رہے۔ یہی نہیں، عالم یہ ہے کہ جواہر لال نہرو کے ہوتے ہوئے حکومت کے کئی شعبے کمزور ہیں۔

’ہم اگر انجینیئرنگ کے بارے میں نہیں جانتے تو ہم اس کی تعلیم لے سکتے ہیں۔ ہم تکینکی معلومات اور آلات کو درآمد کرسکتے ہیں لیکن ہم کسی صورت اپنی ثقافت یا ادب کو درآمد نہیں کرسکتے۔ اس ادب اور ثقافت کو ہم نے اپنی زمین سے ہی بنانا ہو گا۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محفل میں یکدم خاموشی چھا گئی۔ اندرا گاندھی اور نہرو ٹکٹی باندھے دلیپ کمار کو دیکھ رہے تھے، جنہیں لگ رہا تھا کہ انہوں نے جذبات میں آ کر سچ تو کہا ہے لیکن موقع محل مناسب نہیں تھا۔

خاموشی کی اس برف کو توڑتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو نے گلا کھنکھارتے ہوئے کہا، ’جانتے ہو یوسف اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو اتنا شائستہ یا مہذب انداز نہ اختیار کرتا۔ میں اس بات کا جواب الگ ہی طریقے سے جارحانہ انداز میں دیتا۔ بالکل ہم اپنی ثقافت کے علاوہ ہر چیز کو تخلیق اور تبدیل کرسکتے ہیں۔‘

والد کے اس جواب پر اندرا گاندھی کے چہرے پر ناگواری چھا گئی جبکہ خود نہرو نے اس گفتگو کا موضوع ہی تبدیل کرنے میں بہتری جانی۔

دلیپ کمار اب مطمئن اور پرسکون تھے جو سمجھتے تھے کہ انہوں نے ایک اداکار اور پروڈیوسرز کی ایسوسی ایشن کے صدر کے طور پر اندرا گاندھی کو درست اور موثر جواب دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دلیپ کمار کی اس تلخ سچائی کے بعد اندرا گاندھی نے ان سے انڈین فلموں کے خراب معیار کا رونا نہیں رویا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ