سوڈان: متحارب دھڑے شہریوں کے لیے امدادی کارروائیوں پر رضامند

سعودی وزارت خارجہ نے جمعے کو ایک ٹویٹ میں سوڈانی فریقین کے درمیان جدہ میں ہونے والے معاہدے کی تصدیق کی ہے۔

سوڈان سے پناہ کے غرض سے نکلنے کے خواہش مند افراد 4 مئی 2023 کو عالمی ادارہ برائے نقل مکانی کے دفتر کے باہر موجود ہیں (اے ایف پی)

امریکی حکام کے مطابق سوڈان کی فوج اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز نے سوڈانی شہریوں کے تحفظ کا عہد کرتے ہوئے سعودی عرب میں ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

جمعے کو سعودی وزارت خارجہ نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ سعودی عرب اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ 11 مئی 2023 کو جدہ میں، سوڈانی مسلح افواج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے نمائندوں نے سوڈان کے شہریوں کے تحفظ کے لیے ایک اعلامیہ پر دستخط کیے ہیں۔

العربیہ نیوز کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلی عہدیدار نے فون کال پر بتایا ہے کہ ’یہ جنگ بندی نہیں۔ یہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ان کی ذمہ داریوں کی تصدیق ہے، بالخصوص شہریوں کے ساتھ سلوک اور انسانی امداد پہنچانے کی خاطر۔‘

جدہ میں معاہدے پر دستخط کے بعد دفتر خارجہ کے ایک اور سینیئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اگلا قدم انسانی امداد اور ضروری سروسز کی بحالی، ہسپتالوں اور کلینکس سے فورسز کا انخلا اور مرنے والوں کی باعزت تدفین کرنا ہوگا۔‘

عہدیداروں نے تنازعے کے حل میں مدد کرنے پر سعودی عرب کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جدہ میں متحارب فریقوں کو مذاکرات میں شامل کرنے میں سعودی سرمایہ کاری اور بات چیت ’اہم‘ ہے۔

پہلے عہدیدار نے مزید کہا کہ ’اس بات کی پوری توقع ہے کہ اس عمل کو بڑھایا جائے گا، عام شہریوں اور دوسرے، افریقہ اور عرب دنیا میں علاقائی شراکت داروں کو شامل کیا جائے گا۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے معاملے پر دونوں متحارب فریق ’کافی دور‘ ہیں۔

پہلے عہدیدار نے مزید تفصیل بتائے بغیر کہا کہ امریکہ کو بیرونی فریقوں کی ممکنہ مداخلت پر بھی تشویش ہے، جو ’شاید سوڈانی افواج میں سے کسی نہ کسی کا ساتھ دے رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے تنازع کی شدت میں اضافہ ہوگا اور اسے طول ملے گا، لہذا ہم سب کو علاقائی مسائل کے اس پہلو کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جدہ کی بندرگاہ پر ایک ہفتے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد سوڈان کی فوج اور حریف نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) نے ایک اعلامیے پر دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ وہ مزید بات چیت میں قلیل مدتی جنگ بندی پر غور کریں گے۔

مذاکرات کے بعد جاری اعلامیے کے متن میں کہا گیا ہے کہ دونوں دھڑے  ہنگامی انسانی امداد کی فراہمی اور ضروری سروسز کی بحالی کو آسان بنانے کے لیے قلیل مدتی جنگ بندی کے حصول کے لیے بات چیت کو ترجیح دینے کا عہد کرتے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین اپنی توجہ تقریبا 10 دن تک مؤثر جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے پر مرکوز کریں گے۔

امریکی عہدیدار نے کہا کہ سعودی اور امریکی ثالثوں کے ساتھ کام کرنے والے مذاکرات کار امدادی سامان کی حفاظت کے لیے مخصوص حفاظتی اقدامات پر تبادلہ خیال کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ان اقدامات میں امریکہ، سعودی عرب اور بین الاقوامی حمایت یافتہ جنگ بندی کی نگرانی کا طریقہ کار بھی شامل ہوگا۔

فوج اور آر ایس ایف نے اپنے معاہدے میں کہا ہے کہ وہ ’دشمنی کے مستقل خاتمے کے لیے بعد میں بات چیت‘ کریں گے۔

امریکی عہدیدار نے کہا کہ عارضی جنگ بندی سے مستقل جنگ بندی کی طرف بڑھنا ایک طویل عمل ہوگا۔

امریکی عہدیدار نے کہا توقع ہے کہ بعد میں سویلین گروپ بھی مذاکرات میں شرکت کریں گے۔

جمہوری حکومت کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں کے اتحاد فورسز فار فریڈم اینڈ چینج نے اس اعلان کو ’جنگ کے خاتمے کی طرف ایک اہم پہلا قدم‘ قرار دیا اور فورسز پر زور دیا کہ وہ اس پر عمل کریں۔

مردے دفن کرنے کی اجازت

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلی عہدیدار نے کہا کہ جمعے کی صبح دستخط کیے جانے والے اعلامیے میں انسانی امداد کے ترسیل کو بہتر بنانے اور پانی اور بجلی کی بحالی شروع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

عہدیدار نے کہا ثالثوں کو امید ہے، ’ہسپتالوں اور کلینکوں سے سکیورٹی فورسز کے انخلا کا انتظام کرنا اور مرنے والوں کی باعزت تدفین کرنا ممکن ہوگا۔‘

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ لڑائی میں اب تک 600 سے زائد افراد مارے گئے اور پانچ ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ وزارت صحت کا کہنا ہے کہ مغربی دارفور کے علاقے میں کم از کم 450 افراد کی موت ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق خرطوم اور دارفور سے بہت سے لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں، ملک کے اندر سات لاکھ افراد بے گھر اور ایک لاکھ 50 ہزار پناہ گزینوں بن کر ہمسایہ ریاستوں میں جا چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا