حالات ٹھیک ہوئے تو سوڈان واپس جائیں گے: پاکستانی شہری

ضلع مردان کے گاؤں جمال گڑھی سے تعلق رکھنے والے عبداللہ سوڈان میں گذشتہ چار سال سے مقیم تھے، جو اب وہاں جاری کشیدگی کے باعث دیگر پاکستانیوں کے ہمراہ وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔

سوڈان میں دو فوجی دھڑوں میں کشیدگی کے باعث انخلا کے بعد وطن واپس پہنچنے والے مردان کے رہائشی عبداللہ کہتے ہیں کہ جب وہ کراچی ایئرپورٹ پہنچے تو ان کے دل میں خوف کی جگہ سکون آگیا کہ وہ اب محفوظ جگہ پہنچ گئے ہیں۔

ضلع مردان کے گاؤں جمال گڑھی سے تعلق رکھنے والے عبداللہ سوڈان میں گذشتہ چار سال سے مقیم تھے۔

انہوں نے سوڈان میں جاری صورت حال اور اپنی واپسی کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’15 اپریل کو صبح نو بجے جب کمپنی گئے تو دس بجے فائرنگ اور بمباری شروع ہوگئی، جس کے بعد ہم اپنے گھروں میں محصور ہوگئے اور دو ہفتوں تک خرطوم شہر میں اپنے گھروں میں رہے۔‘

35 سالہ عبداللہ نے بتایا کہ دکانیں اور مارکیٹیں بند ہوگئی تھیں اور جب کھانے کی اشیا ختم ہونے لگیں تو خوف تھا کہ کیا کھائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ سوڈان میں پاکستانی سفارت خانے کے عملے نے بہت زیادہ تعاون کیا اور انہیں جگہ فراہم کرنے کے علاوہ کھانے پینے کا بھی بندوبست کیا۔ اس کے علاوہ وٹس ایپ کا ایک گروپ بنا کر اس میں سوڈان میں رہائش پذیر پاکستانیوں کا اندراج کیا اور مختلف طریقوں سے سوڈان سے ان کا انخلا کیا گیا۔

عبداللہ نے بتایا کہ زیادہ تر پاکستانی سوڈان میں واقع کمپنیوں میں کام کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کا اپنا بھی کاروبار ہے۔ تاہم اس جنگ کے آغاز کی وجہ سے سب لوگ اپنا کام کاج چھوڑ کر اپنے ملک بخیریت پہنچ گئے ہیں۔

بقول عبداللہ: ’سفارت خانے والوں نے ہمارا اندراج کردیا۔ کچھ لوگوں کے پاس پاسپورٹ بھی نہیں تھے کیونکہ پاسپورٹ کمپنی والوں کے پاس رہ گئے تھے، لیکن سفارت خانے والوں نے ایک پیپر بنایا اور بتایا کہ پاسپورٹ کی اب ضرورت نہیں ہے۔ ہم ایسا پیپر بنا رہے ہیں کہ جس ملک میں بھی آپ یہ کاغذ دکھائیں گے تو کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔‘

ایئرپورٹ سے روانگی کے حوالے سے انہوں نے بتایا: ’پہلے ہم پریشان تھے کہ ہم کیسے پاکستان جائیں گے۔ سفارت خانے والوں نے ہمیں پورٹ سوڈان بھیج دیا، جہاں ایک ایئرپورٹ تھا، جو محفوظ تھا اور وہاں فائرنگ نہیں ہو رہی تھی۔ جو تین، چار ایئرپورٹ تھے، وہ بند تھے۔ ان لوگوں نے بمباری میں وہ تباہ وبرباد کردیے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’پورٹ سوڈان ایئرپورٹ پر پاکستانی طیارے ہمیں لینے آئے تھے۔ پھر ہم 200، 300 کے قریب لوگ محفوظ طریقے سے پہلے جدہ پہنچے اور وہاں سے 12 گھنٹے کے سفر کے بعد بذریعہ جہاز کراچی پہنچ گئے۔‘

عبداللہ نے سعودی عرب کے ساتھ ساتھ چین کا بھی شکریہ ادا کیا، جنہوں نے پاکستانیوں کے انخلا میں کردار ادا کیا۔

انہوں نے بتایا: ’سوڈان کے حالات جب ٹھیک ہوجائیں گے تو واپس سوڈان جائیں گے کیونکہ وہاں کاروبار بہت زبردست ہے اور بہت خوشی سے ٹائم گزرا۔ بہت سے لوگوں نے بزنس چھوڑ دیا ہے وہ لوگ بھی واپسی کا سوچ رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’سوڈان کے حالات ایسے ہیں جیسے ہم پاکستان میں آزاد گھومتے ہیں۔ پولیس نہیں پوچھتی کہ پاسپورٹ دکھاؤ، شناختی کارڈ دکھاؤ۔ میں نے چار سال گزارے ہیں۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ کس ملک سے ہیں، ادھر کیا کر رہے ہیں۔ مکمل آزادی تھی۔ ہم خوشی سے زندگی گزارتے تھے۔‘

عبداللہ نے بتایا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستانی سفارت خانہ خرطوم سے ختم ہوگیا لیکن سفارت خانہ ختم نہیں ہوا، بلکہ محفوظ مقام پورٹ سوڈان شفٹ ہوا ہے اور وہ لوگ پاکستانیوں کو نکالنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ سفارت خانے والوں کا کہنا ہے کہ ہم سب کو نکال لیں گے، کسی کو بھی وہاں نہیں چھوڑیں گے۔‘

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اب تک 1400 پاکستانی واپس پہنچ چکے ہیں اور کم تعداد میں ہی پاکستانی اب سوڈان میں موجود ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی