لاشیں گرتی ہیں، کوئی اٹھاتا نہیں: سوڈان میں مقیم پاکستانی

اقوام متحدہ کے مطابق سوڈان میں جھڑپوں کی وجہ سے اب تک 185 سے زائد اموات جبکہ 1800 سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں، لیکن فریقین بات چیت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

جنوبی افریقی ملک سوڈان میں پچھلے ہفتے سے سوڈانی فوج اور ’ریپیڈ سپورٹ فورسز‘ نامی نیم فوجی دستوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں اور یہ سب اقتدار کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں سوڈان میں مقیم پاکستانیوں نے بتایا ہے کہ وہ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور ہر وقت گولیاں چلنے کی آوازوں کی وجہ سے خوف و ہراس کی فضا قائم رہتی ہے۔

اگرچہ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ریپڈ سپورٹ فورس کے حمیدتی کے نام سے مشہور کمانڈر نے عالمی مطالبات کے پیش نظر 24 گھنٹوں کی جنگ بندی کا اعلان کیا ہے، لیکن فوج کا کہنا ہے کہ اسے اس کی کوئی معلومات نہیں ہیں۔ دوسری جانب جنگ بندی کے دعوے کے باوجود منگل کی شب دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔

سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے ایئرپورٹ کے قریب مقیم پاکستانی شہری رانا قیصر نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار امرگرڑو کو بتایا: ’گذشتہ چار دنوں سے جاری سوڈانی فوج اور نیم فوجی دستوں کے درمیان لڑائی کے دوران ہر وقت فائرنگ سنائی دیتی ہے اور رات کے اوقات میں اتنی شدید فائرنگ ہوتی ہے کہ گولیاں موسلا دھار بارش کی طرح برس رہی ہوتی ہیں۔‘

اسلام آباد کے رہائشی رانا قیصر خرطوم میں سولر انرجی کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ 20 کے قریب پاکستانی ملازم بھی ہیں جو حالیہ لڑائی کے دوران گھروں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔

رانا قیصر کے مطابق: ’ہماری رہائش گاہ سے ایئرپورٹ تھوڑے سے فاصلے پر ہے اور ہم یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں، مگر ایک لحمے کے لیے بھی فائرنگ بند نہیں ہو رہی کہ ہم کہیں نکل سکیں۔

’یہاں پر دکانیں اور مارکیٹیں بند ہیں۔ بجلی اور گیس بھی بند ہے۔ ہم کھانا لکڑی یا کاغذ جلاکر پکاتے ہیں۔ حالات انتہائی خراب ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ پاکستانی سفارت خانے نے انہیں احتیاط برتنے اور گھروں کے اندر رہنے کی ہدایت کی ہے۔ ’حالات اتنے خراب ہیں کہ ایمبیسی بھی کچھ نہیں کر پا رہی ہے۔‘

رانا قیصر نے اپنے گھر کی چھت سے کھینچی ہوئی تصویر دکھائی، جس میں ان کے علاقے میں بڑی تعداد میں ٹینک کھڑے نظر آئے۔ وہ جس وقت انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کر رہے تھے تو پس منظر میں شدید فائرنگ کی آوازیں گونج رہی تھی۔

رانا قیصر کے مطابق خرطوم ایئرپورٹ کے قریب تقریباً دو سے ڈھائی ہزار پاکستانی مقیم ہیں جو خراب حالات کے باعث گھروں تک محدود ہیں۔

انہوں نے حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ سفارتی تعلقات استعمال کرکے سوڈان میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو نکال کر جلد از جلد باحفاظت پاکستان پہنچایا جائے۔

دوسری جانب صوبہ پنجاب کے شہر گجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے رانا ابو ہریرہ گذشتہ ایک سال سے سوڈان میں حصول تعلیم کی غرض سے مقیم ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہار اللہ سے وٹس ایپ کے ذریعے گفتگو کی۔ اس گفتگو کے پس منظر میں بھی گولیاں چلنے کی آوازیں آرہی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حالات ایسے ہیں کہ ہم گھروں تک محصور ہوگئے ہیں۔ ایک تو رمضان ہے اور دوسری جانب جنگ جاری ہے اور اسی وجہ سے گھر سے باہر نکل کر خوراک کے لیے بھی کچھ نہیں لاسکتے۔‘

رانا ابو ہریرہ نے بتایا کہ ’گذشتہ کچھ دنوں سے ہم فائرنگ کے درمیان رہ رہے ہیں اور باہر بھی نہیں نکل سکتے۔ حالات ایسے بن گئے ہیں کہ باہر آرمی اور پیرا ملٹری کے درمیان جنگ کے دوران لوگ ہلاک ہو رہے ہیں لیکن لاشیں کھلے میدان میں پڑی رہتی ہے اور کوئی اٹھانے والا نہیں ہوتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوڈان میں فوج اور ’ریپیڈ سپورٹ فورسز‘ نامی نیم فوجی دستوں کے درمیان لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب فوج نے خوف کی وجہ سے نیم فوجی دستوں کے اہلکاروں کو اہم تنصیبات پر ڈیوٹیوں سے ہٹایا، جس پر نیم فوجی دستوں نے مزاحمت کی۔

سوڈان میں مقیم پاکستانی رانا ابو ہریرہ نے بھی بتایا کہ انہیں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے غیر ضروری نقل و حرکت سے منع کیا گیا ہے اور یہاں بھی تمام مارکیٹیں اور دکانیں بند اورسڑکیں سنسان ہیں۔

’سڑکوں پر ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں ہی نظر آتی ہیں جبکہ بعض اندرونی علاقوں میں کچھ ضروری اشیا کی دکانیں کھلی ہیں لیکن رمضان کی وجہ سے ہمیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘

رانا نے بتایا کہ ’ہمیں پانی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ تندور پر روٹی اور پانی لینے والوں کی قطاریں لگتی ہیں جبکہ گلیوں میں دونوں فورسز کے لوگ موجود رہتے ہیں اور جنگ جاری ہے۔‘

اقوام متحدہ کے مطابق سوڈان میں جھڑپوں کی وجہ سے اب تک 185 سے زائد اموات جبکہ 18 سو سے زائد زخمی ہوچکے ہیں لیکن فریقین بات چیت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

اس جنگ کی اصل وجہ کیا ہے ؟

سوڈان میں زیادہ تر فوج ہی برسر اقتدار رہی ہے۔ سوڈانی فوج سربراہ جنرل عبدالفتح البرہان ملک کے ڈی فیکٹو حاکم تھے، جن کو سوڈانی فوج کی حمایت حاصل تھی۔

دوسری جانب سوڈان کی ملیشیا یا پیرا ملٹری فورس جنرل عبدالفتح کی حمایت نہیں کرتی بلکہ سابق وار لارڈ جنرل محمد ہمدان دقلو عرف حمیدتی کی حمایت کرتی ہے۔

سوڈان میں پیرا ملٹری یا ملیشیا کی بنیاد آج سے تقریباً 20 سال قبل رکھی گئی تھی اور اس کو سوڈان کے علاقے دارفر میں عوامی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا لیکن بعد میں اسی ملیشیا پر نسل کشی کا الزام بھی لگایا گیا۔

اسی ملیشیا کی سربراہی حمیدتی جبکہ فوج کی سربراہی جنرل عبدالفتح کر رہے ہیں اور یہ دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔

سوڈان میں مقیم پاکستانی رانا ابو ہریرہ نے بتایا کہ ’ہمیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں۔ فوج اپنی سیاست میں مصروف ہے، عوام کو بہت زیادہ مشکلات ہیں اور یہ مشکلات صرف پاکستانیوں تک محدود نہیں بلکہ کسی بھی ملک کا شہری ہو، وہ ان حالات سے متاثر ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا