باعمل، متحرک اور اپنی سرزمین اس آثار قدیمہ اور تاریخ کے ساتھ عشق کرنے والے گل حسن کلمتی کو سندھ کی تاریخ اور تحقیق کے حوالے سے ایک عالم کا درجہ حاصل تھا۔
ان کا گذشتہ روز 66 برس کی عمر میں جگر کے عارضے کے باعث انتقال ہو گیا تھا۔
انہوں نے صرف کسی جگہ بیٹھ کر تاریخ نہیں لکھی بلکہ ہر جگہ اور قدیم مقامات کو خود دیکھ اور تاریخی دستاویزات تلاش کر کے لکھتے تھے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مصنف پناہ بلوچ کہتے ہیں کہ ’گل حسن کلمتی ایک تاریخ دان ہی نہیں بلکہ وہ اپنے کام سے عشق کرنے والے شخص تھے، جن کو میں نے کبھی تھکتے نہیں دیکھا، انہیں کراچی کا عاشق بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ کراچی کے حوالے سے انہوں نے وہ کام کیا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔‘
پناہ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گل حسن کا سب سے اہم کام ’سسی جی واٹ‘ نامی کتاب ہے، جس میں انہوں نے ایک قدیم کہانی کے کرداروں اور ان کے سفر کے راستے کا تعین کرنے کے لیے خود اسی راستے کو تلاش کیا، جس کے لیے انہوں نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری میں ان جگہوں کے نام اور موجودہ وقت میں کیا تھا وہ سب تحقیق اور کئی سالوں تک محنت کر کے جمع کیا۔
On behalf of the World Sindhi Congress, we extend our heartfelt condolences on the sad demise of Saaiin Gul Hassan Kalmati, a renowned writer, historian, and civil rights activist. His passing is a great loss, not only for his family and loved ones but also for the entire Sindhi… pic.twitter.com/pAKKZH2jLP
— WorldSindhiCongress (@sindhicongress) May 17, 2023
انہوں نے کہا: ’گل حسن نے اپنی تاریخ کو ثبوت، دستاویزات کے ذریعے لکھا وہ اس کے ساتھ ایک متحرک سماجی کارکن بھی تھے، وہ سندھ کے قدیم آثار کے عاشق اور ان کے تحفظ کے لیے بھی سرگرداں رہتے تھے، وہ کبھی کسی ٹیلے پر، کسی پہاڑ کی چوٹی پر اور کبھی کسی قدیم آثار کے پاس لوگوں کو ملتے تھے۔‘
پناہ بلوچ کے بقول: ’وہ ایسے عالم تھے، جن کی علم سے ایم فل اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے والے مستفید ہوتے تھے، 2016 میں ہم نے نظامت ثقافت بلوچستان کے تعاون سے کیچ کلچرل فیسٹیول کا انعقاد کیا تھا، جس کے لیے انہیں اور ان کے ساتھی رحمان گل پالاری کو بھی مدعو کیا تھا، گل حسن کے پیش کردہ مقالے پر میں نے اپنی کتاب "کیچ، ماضی ، حال اور مستقبل" کے نام سے چھاپی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ جب وہ کوئٹہ میں تھے تو ان سے نشست ہوتی رہی، وہ تاریخ کو مشاہدات، دستاویزات کے پس منظر میں اس طرح بیان کرتے تھے، کہ سننے والا بھی سو دو سو اور ہزاروں سال پہلے کے دور میں پہنچ جاتا تھا، وہ ایک پروفیشل تاریخ دان اور ماہر آثار قدیمہ نہیں تھے، بلکہ وہ ان سے عشق کرتے تھے اور جو کام عشق میں کیا جائے تو بندہ میں ڈوب اور گم ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ بیان کرتے وقت سننے والوں کو بھی اپنے اس عشق کے ساتھ ملا دیتے تھے۔
پناہ کہتے ہیں: ’قادر مکرانی کی تاریخ، کراچی کی قدیم عمارتیں، گلیاں، یہودیوں کی تاریخ، ملیر کے قدیم آثار غرض انہوں نے اپنی زندگی میں یہ سب کچھ کیا اور کبھی تھکے نہیں، میں نے ان کو کیچ کے دوران دیکھا جب ہم نے شاہی تمپ اور میری قلات کے دورے پر گئے تھے، میں نے دیکھا کہ یہ جگہیں دیکھ کر ان میں مزید طاقت آ جاتی تھی، وہ تھکاوٹ کو ہی اپنی طاقت بنا دیتے تھے، جو شاید پروفیشل لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔‘
سلمان بلوچ گل حسن کے بھانجے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گل حسن کبھی گھر میں بیٹھے نہیں رہے، کبھی وہ کسی تقریب یا تحقیق کے سلسلے میں گھر سے باہر رہتے تھے، وہ متحرک انسان تھے، میرے نزدیک ان کا بڑا کام یہ ہے کہ انہوں نے کراچی کے جتنے بھی آثار قدیمہ ہیں ان کو جی پی ایس کے ریکارڈ کیا۔‘
سلمان نے بتایا: ’سسی کی کہانی کے حوالے سے انہوں نے خود جا کر راستے کو تلاش کیا، اس کے علاوہ وہ سیاسی طور پر متحرک رہے، انہوں نے ملیر ایکسپریس وے کے حوالے سے اور بحریہ ٹاؤن کے خلاف احتجاج بھی کیا، انڈیجنس الائنس کے قیام میں بھی ان کا اہم کردار تھا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’گل حسن ہمیشہ متحرک رہتے تھے، انہوں نے بہت سے سفرنامے لکھے ہیں اس مقصد کے لیے انہوں نے عراق، شام اور ایران کے بلوچ علاقوں کا بھی دورہ کیا تھا، وہ خود آثار قدیمہ کو جا کر دیکھتے اور پھر کچھ لکھتے تھے، اس کے علاوہ وہ ہر پروگرام میں شرکت کرتے تھے، ان کے لوگوں کے ساتھ تعلقات بھی بہت تھے، ان کا ایک ہنر تھا کہ وہ لوگوں کے ساتھ جلد تعلق بنا لیتے تھے، بچوں کے ساتھ رہنا بھی ان کو بہت اچھا لگتا تھا۔‘
سلمان کے مطابق: ’گل حسن کی ایک بیٹی ہے جو شادی شدہ ہے، اس کے علاوہ ان کی اپنی تین ہزار کتب پر مشتمل ذاتی لائبریری اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کے نام سے ایک لائبریری قائم کی، جس میں دس سے بارہ ہزار کے قریب کتابیں ہیں، انہوں سندھ حکومت کے مختلف اداروں کو لکھا بھی انہیں اس لائبریری کی عمارت کے لیے مدد دی جائے لیکن ان کی زندگی میں یہ نہ ہو سکا، اس کے لائبریری میں تاریخ اور سفرناموں کے علاوہ آثار قدیمہ کی کتابیں ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ادھر کراچی سے تعلق رکھنے والے ادیب شاعر وحید نور جن کا اکثر و بیشتر گل حسن کے تعلق رہتا تھا، ان کے ساتھیوں میں شامل تھے، وہ اس کا بڑا نقصان اور ایک نہ پر ہونے والا خلا سمجھتے ہیں۔
وحید نور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ تاریخ اور سیاست کے میدان میں بھی عملی طور پر جدوجہد کرنے والے انسان تھے، انہوں نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف آواز بلند کی ، جس پر ان کے خلاف مقدمات بھی بنے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ وقت پہلے وہ بیمار تھے، انہوں نے اپنی آخری کتاب سندھی زبان میں لکھی تھی، ’کراچی سندھ کی ماروی‘ کے نام سے جس کا انگریزی میں ترجمہ ہوا ہے۔ جس وقت اس کی تقریب رونمائی تھی، اس وقت وہ ہسپتال میں تھے، تقریب کے لیے وہ ایمبولینس میں آئے تھے، بہت کمزور ہو گئے تھے۔‘
وحید نے بتایا: ’میں نے ہسپتال میں بیماری کے دوران ان سے ملاقات کرنے جاتا تھا، میں نے ایک بار ان سے پوچھا کہ وہ صحت یاب ہو کر پہلا کون سا کام کریں گے؟ تو گل حسن نے کہا کہ میں نے کراچی کے سینما گھروں کی تاریخ پر مشتمل کتاب لکھی ہے، اسے ختم کروں گا، ان کے جانے کا بہت بڑا غم ہے، ہمارے اور کراچی کے لیے بڑا نقصان ہے۔‘
کراچی کے ضلع ملیر کے گاؤں گڈاپ میں پیدا ہونے والے گل حسن، بلوچ قبیلے کلمت سے تعلق رکھتے تھے، اسی لیے انہیں گل حسن کلمتی کے نام سے جانا جاتا تھا، جنہوں نے تاریخ اور سفرناموں پر مشتمل 11 کتابیں تصنیف کیں، ان کی ایک کتاب کا ترجمہ معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی نے بھی کیا ہے۔
گل حسن کلمتی کا سوانحی خاکہ
ان کی ویب سائٹ اور فیملی کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق گل حسن ایک تاریخ دان، محقق، ماہرِ بشریات، سماجی اور انسانی حقوق کے جدوجہد کرنے والے تھے، انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی کے ضلع ملیر کے علاقے گڈاپ سے حاصل کی، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ بھی یہی سے کیا، بی اے آرٹس کالج کراچی، جرنلزم میں ماسٹر کراچی یونیورسٹی سے کیا، انہوں نے کالج ک دوران نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن اور بعد میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بھی رہے۔
وہ ’انڈیجینس رائٹس الائنس‘ کے بانی بھی تھے، وہ مختلف اخبارات اور میگزین کے لیے لکھتے تھے، انہیں اپنے تاریخی اور تحقیقی کام کے باعث مختلف اعزازات بھی نوازا گیا، وہ جگر کے کینسر کے عارضے میں مبتلا ہو کر رخصت ہوئے۔