کشمیر میں ایک ہزار سے زائد افراد گرفتار، 350 سیاست دان نظربند

سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے ایک رکن نے کہا ’یہ گرفتاریاں بھارت کی فسطائی حکومت کی جانب سے کشمیر کے لوگوں کے لیے تحفہ ہیں۔‘

10 اگست کو لی گئی اس تصویر میں جموں میں ایک مظاہرے کے دوران پولیس جموں و کشمیر یوتھ کانگریس کےرکن کو گرفتار کر رہی ہے (اے ایف پی)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وہاں مزاحمتی تحریک کو دبانے کے لیے جاری بھارتی حکومت کے کریک ڈاؤن کے دوران 1300 سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔

ذرائع ابلاغ پر مکمل پابندی کے باعث بیرونی دنیا سے رابطے ختم ہونے سے مشکلات کا سامنا کرتے سری نگر کے مقامی افراد نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اب وہ اپنے شہر کو پہچان بھی نہیں سکتے۔ جب سے حکومت نے کشمیر کو اس کی خودمختاری سے محروم کیا ہے پورا شہر ہی خاردار تاروں کی ایک رکاوٹ میں تبدیل ہو چکا ہے۔

پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق گرفتار اور اپنے گھروں میں نظربند کیے گئے 1300 افراد میں سے 350 سیاست دان ہیں۔ تاریخ میں پہلی ایسا بار ہوا ہے کہ بھارت نواز جماعتوں کی تمام قیادت اور سابقہ تین وزرا اعلیٰ بھی اس نظربندی میں شامل ہیں۔

کشمیر کا علاقہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع ہے اور دونوں ممالک اس پر اپنا اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر 1989 سے ہی  پرتشدد شورش کا شکار ہے جس میں اندازاً 70 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے ایک رہنما نے کہا کہ بھارتی حکومت کے علیحدگی پسندوں، بھارت نواز اور پاکستان نواز سیاست دانوں میں تفریق نہ کرنے کے باعث گذشتہ دس روز کے دوران پوری وادی کی عوام کشمیر کی خود مختاری کے لیے متحد ہو چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’ہم نے گذشتہ 70 سالوں سے کشمیر میں علیحدگی پسندی کی تحریک کے باوجود بھارت کا جھنڈا اٹھائے رکھا ہے لیکن یہ گرفتاریاں بھارت کی فسطائی حکومت کی جانب سے کشمیر کے لوگوں کے لیے تحفہ ہیں۔‘

لوگ مشکلات کے باوجود زندگی معمول کے مطابق گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے کچھ لوگوں کے لیے یہ ناممکن ہو چکا ہے۔ سری نگر کی ایک خاتون کے مطابق جنوبی شہر اننت ناگ میں رہائش پذیر ان کی 31 سالہ بیٹی ایمان کے ہاں 7 اگست کو بچے کی پیدائش متوقع تھی۔ مگر انہیں اس بارے میں اب تک کوئی خبر نہیں ہے کہ وہ نانی بن چکی ہیں یا نہیں۔

سری نگر کی ایک گلی میں چلتے ذوالفقار احمد کا کہنا تھا: ’ایسا لگتا ہے جیسے یہ علاقہ ہمارا نہیں رہا۔ مجھے ڈر ہے کہ ہماری دھرتی پر قبضہ ہو چکا ہے اور ایسا ایک لمبے عرصے کے لیے ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چار سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی نافذ ہونے کے باعث روزانہ کی بیناد پر ہونے والی جھڑپیں کم ہی رہی ہیں۔ لیکن ہسپتال عہدیداروں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ کم سے کم 15 ایسے نوجوانوں کو ہسپتال لایا جا چکا ہے جن کو پولیس کی جانب سے فائر کیے گئے پیلٹس کے زخم آئے تھے۔

ایس ایم ایچ ایس ہسپتال سری نگر کے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ان مریضوں کی حالت ٹھیک نہیں تھی کیونکہ ان کی آنکھیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ ایک ڈاکٹر نے کہا: ’ہم نے ابتدائی علاج کر دیا ہے لیکن جب تک خون کا بہاو رک نہیں جاتا ہمیں سرجری کے لیے انتظار کرنا ہوگا۔‘

 ایک سرکاری عہدیدار جن کو روزانہ میڈیا کو بریف کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے نے کہا کہ حکومت کو علم ہے کہ عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن انہوں نے یہ کہہ کر پابندیوں کا دفاع کیا کہ کچھ لوگ خطے کے امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ہی علاقے میں جاری شورش کو ختم کر سکتا ہے اور یہ علاقے میں معاشی استحکام لانے کے ساتھ ساتھ اکثیریتی ہندو ملک کے لوگوں کے لیے کشمیر میں جائیداد خریدنے اور نوکریوں کے مواقعے پیدا کرے گا۔

بدھ کو حکومت نے اعلان کیا کہ 12 اکتوبر کو سری نگر کے ایک ہائی سیکیورٹی کنونشن سنٹر میں ’پہلی سرمایہ کاری‘ کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ کانفرنس جموں و کشمیر کو سرمایہ کاروں کے لیے ایک پسندیدہ جگہ کے طور پر دکھانے میں مددگار ہوگی۔

مقامی افراد اور سیاست دان دونوں ہی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے 5 اگست کے بھارتی فیصلے کو مسلم اکثریتی کشمیر کی آبادیاتی تشکیل کو بدلنے اور اور اس متنازع علاقے میں ہندوؤں کو آباد کرنے کی ’سازش‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔

 سری نگر کے ایک رہائشی جاوید احمد کا کہنا تھا: ’ہمارے نوجوانوں کو ان بھارتی کوششوں کے خلاف لڑنا ہوگا جو کشمیر کی آبادیاتی تشکیل کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنی زندگی کی حفاظت کرنی ہوگی ہمیں آزادی کے لیے جینا ہوگا۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا