کین فلم فیسٹیول میں افغان خواتین پر مبنی فلم جاری

’بریڈ اینڈ سرخ پھول‘ طالبان کے خلاف افغان خواتین کی مزاحمت کی داستان ہے۔

21 مئی2023 جنوبی فرانس کے شہر کین میں منعقد ہونے والے فلم فیسٹیول کے 76 ویں ایڈیشن میں افغان ہدایت کار ساحرہ مانی (دائیں جانب) فلم 'بریڈ اینڈ روزز‘ کی فوٹو کال کے دوران پوز دے رہی ہیں (ایل او آئی سی وینس / اے ایف پی)

ایک افغان فلم ساز ساحرہ مانی کی بنائی ہوئی اور ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ اور آسکر ایوارڈ یافتہ جینیفر لارنس کی تیار کردہ دستاویزی فلم ’بریڈ اینڈ ریڈ فلاورز‘ کو کین فلم فیسٹیول میں ریلیز کر دی گئی ہے۔

یہ دستاویزی فلم طالبان کے زیر انتظام ملک میں بسنے والی تین خواتین کی زندگیوں کے بارے میں ہے جو طالبان کے رویوں اور خواتین کو تاریخ کی تاریکی کی جانب دھکیلنے کی کوششوں کے خلاف شہری جدوجہد کو بیان کرتی ہے۔

فلم کی نمائش سے قبل ساحرا مانی سٹیج پر گئیں اور اپنی فلم کے حوالے سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی فلم انسانی وقار اور آزادی حاصل کرنے کے لیے خواتین کی کوششوں کی داستان ہے۔

ساحرہ مانی نے مزید کہا: یہ فلم افغانستان کی خواتین کا پیغام ہے۔ ایک نرم پیغام کہ برائے مہربانی ہماری آواز بنیں جو طالبان کی آمریت کے دباؤ میں خاموش ہو گئے ہیں۔ ’اب جبکہ خواتین کو محرم کے بغیر گھروں سے نکلنے کی بھی اجازت نہیں، میں نے ان کی آواز بننا اور ان کے تلخ دنوں کی تصویر کشی کرنا اپنا فرض سمجھا۔‘

ساحرہ مانی نے کین فلم فیسٹیول کی آفیشل ویب سائٹ کو بتایا کہ دستاویزی فلم کا سب سے مشکل حصہ فلم بندی اور اس میں موجود لوگوں کو محفوظ رکھنا تھا۔ فلم کے تمام اداکاروں کے افغانستان چھوڑنے کے بعد اس فلم کا اجرا ممکن ہوا۔

جینیفر لارنس اور جسٹن سیاروکی کے ساتھ ان کی مشترکہ فلم کمپنی اس فلم کو تیار کر رہی ہیں۔ دونوں نے حال ہی میں ساحرہ مانی کی پہلی فلم دیکھی جس کا نام تھا ’اے تھاوزنڈز آف گرلز لائک می‘، جو انہوں نے 2018 میں بنائی تھی۔

یہ فلم دیکھنے کے بعد ہی انہوں نے افغان خواتین کی حمایت اور ان کے برے وقت کو سکرین پر دکھانے کا سوچا۔ انہوں نے صحرا مانی کو تلاش کیا اور افغانستان میں خواتین کی زندگیوں پر فلم بنانے پر رضامند ہوگئے۔

ساحرہ مانی اس فلم کی شوٹنگ کے لیے خفیہ طور پر افغانستان گئی تھیں۔ جینیفر لارنس کہتی ہیں کہ ’ہم بہت دباؤ میں تھے۔ فرانس واپس پہنچنے تک اور فلم کے باقی عملے کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد ہم نے راحت کی سانس لی۔‘

لارنس، جو آسکر ایوارڈ یافتہ بھی ہیں، کہتی ہیں: ’ان خواتین کو دیکھنا بہت تکلیف دے ہے جو اپنے بچوں کی پرورش کر رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سڑکوں پر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف احتجاج کرتی ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔‘

ڈاکومنٹری ’بریڈ اینڈ ریڈ فلاورز‘ میں طالبان کے جبر کے خلاف تین خواتین کی جدوجہد کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ اگرچہ وہ طالبان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے خطرات سے بخوبی واقف ہیں لیکن وہ اپنے حقوق آسانی سے کھونا نہیں چاہتیں۔ وہ طالبان کے خلاف سڑکوں پر کھڑی ہیں۔

فلم کے ایک منظر میں طالبان سپاہی ایک لڑکی سے کہتا ہے: ’بات مت کرو، ورنہ میں تمہیں یہیں مار ڈالوں گا اور لڑکی اونچی آواز میں کہتی ہے: تو مار دو! تم نے ہم سے سکول چھین لیا، تم نے ہم سے یونیورسٹی چھین لی تو بہتر ہے کہ تم مجھے بھی مار دو۔‘ یہ خوفناک دورت حال جب پیدا ہو رہی تھی تو ایک خفیہ ویڈیو کیمرہ انہیں ریکارڈ کر رہا تھا۔

یہ فلم نوجوان خواتین کے شب و روز کی پیروی کرتی ہے۔ یہ کہانی ہے زہرہ حق پرست کی جو ایک دندان ساز ہیں، پاکستان میں رہنے والی خواتین کے حقوق کی ایک کارکن ترنم سعیدی اور شریفہ محمدزادہ جسے سرکاری ملازمت سے نکال دیا گیا تھا اور وہ گھر میں رہنے پر مجبور ہے۔

اس فلم کے لمحات کا کچھ حصہ ساحرہ مانی نے خود فلمایا اور دوسرا حصہ ان لڑکیوں اور خواتین نے فلمایا جو سڑکوں پر نکلتی ہیں یا گھروں کے تہہ خانوں میں احتجاجی پروگرام تیار کرتی ہیں۔

فلم افغانستان میں لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کی عکاسی سے شروع ہوتی ہے۔ ایک مصروف بازار جہاں لوگ مختلف اشیا سے بھری دکانوں کے ساتھ خریداری کر رہے ہیں اور رنگ برنگے کپڑوں میں بچے گلیوں میں بھاگتے اور کھیل رہے ہیں۔ پھر گرج چمکتی ہے، جو تاریک دور کے آغاز کی نشانی ہے، اور پھر تین خواتین کو دکھایا گیا ہے جو فلم کا مرکزی مرکز ہیں؛ وہ گلی کوچوں میں اپنا احتجاجی پروگرام تیار کر رہی ہیں۔

فلم کے ایک سلسلے میں ایک تہہ خانے میں ایک لمبی میز کے ساتھ 12 کرسیاں دکھائی گئی ہیں جن پر براجمان خواتین کو وہاں ایک احتجاجی پروگرام کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

یہ فلم ابھی کین فیسٹیول میں نمائش کے لیے پیش کی گئی ہے تاہم اس کے پروڈیوسرز اسے دنیا بھر میں دکھانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ جینیفر لارنس اور جسٹن ساروکی نے طالبان کے زیر کنٹرول خواتین اور لڑکیوں کے حالات زندگی سے پوری دنیا کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جینیفر لارنس کہتی ہیں: ’ہم اس ملک سے الگ نہیں ہوں گے۔ ہمارے پاس جمہوریت ہی واحد چیز ہے اور ہمیں خواتین کی انفرادی آزادیوں کو پامال نہیں ہونے دینا چاہیے۔‘

مراکشی خاتون جیوری میں

مریم توزانی ایک مراکشی ہدایت کار اور سکرین رائٹر ہیں۔ وہ 76 ویں کین فلم فیسٹیول کی سینیما انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے آٹھ دیگر افراد کے ساتھ جیوری کی رکن ہیں۔

میلے کی جیوری اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ مقابلے میں حصہ لینے والی 21 فلموں میں سے Palme d'Or ایوارڈ کس کو دیا جائے گا۔ فرانس میں کین فلم فیسٹیول منگل کو شروع ہوا جو 27 مئی تک جاری رہے گا۔

تانجیر سے تعلق رکھنے والی مریم توزانی ایک صحافی ہیں جنہوں نے فلموں کے بارے میں لکھ کر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد وہ فلم سازی کے میدان میں داخل ہوئیں اور سکرپٹ لکھنے اور مختصر اور دستاویزی فلموں کی ہدایت کاری شروع کی۔

مراکش میں جنسی کارکنوں کی زندگیوں کے بارے میں ایک فلم سمیت متعدد دستاویزی فلمیں بنانے کے بعد، مریم توزانی نے 2019 میں اپنی پہلی فیچر فلم ایڈم کی ہدایت کاری کی۔

یہ فلم مراکش میں بنی ہے جو ایک نوجوان لڑکی سامیہ کی کہانی پر مبنی ہے جو ایک ایسے وقت میں شادی کے بعد حاملہ ہو جاتی ہے جب ایسا کرنا غیرقانونی تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیشنل نیوز کے مطابق فلم کو کین فلم فیسٹیول کے لیے ’اے کائنڈ آف لک‘ کیٹیگری میں منتخب کیا گیا جس میں منفرد انداز اور غیر معمولی کہانیوں والی فلموں کی نمائش کی گئی ہے۔

اس فلم کو 92 ویں اکیڈمی ایوارڈز میں بہترین بین الاقوامی فیچر فلم کے لیے مراکش کی نامزدگی کے لیے بھی منتخب کیا گیا تھا۔

مریم توزانی نے اس کے بعد اپنے فلم ساز شوہر نبیل آیوش کی ہدایت کردہ فلم ’رضیہ‘ کی تحریر اور اداکاری میں معاونت کی۔ انہوں نے کاسابلانکا بیٹس کے لیے سکرپٹ بھی لکھا، جو کہ ہپ ہاپ کلچر کے ذریعے روایت سے آزاد ہونے کے بارے میں ایک فلم ہے۔

ان کا سب سے حالیہ فلمی منصوبہ تنقیدی طور پر سراہا جانے والا بلیو کیفٹن تھا، جو پچھلے سال جاری ہوئی تھی۔ فلم کی کہانی ایک ادھیڑ عمر جوڑے کے گرد گھومتی ہے، جس کی زندگی اس وقت مشکلات میں گھر جاتی ہے جب وہ سلائی کے لیے ایک خوبصورت اپرنٹیس کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔

اس فلم کو کین فیسٹیول میں ’ایک قسم کی نظر‘ سیکشن میں نمائش کے لیے بھی منتخب کیا گیا اور اسے اکیڈمی ایوارڈز میں بین الاقوامی فیچر فلموں کی ابتدائی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ اس فلم کو ساتویں عربی فلم کریٹکس ایوارڈز میں بہترین فلم اور بہترین ہدایت کار کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔

مریم توزانی کے علاوہ کین فلم فیسٹیول 2023 کی جیوری کے اراکین میں بری لارسن، اداکار، پال ڈانو، اداکار/ہدایت کار، روبن اوسٹلنڈ، سویڈش ہدایت کار، جولیا ڈوکورنا، فرانسیسی ہدایت کار، عتیق رحیمی، افغان مصنف اور ہدایت کار، ڈینس منوچے، فرانسیسی اداکار، رونگانو برطانوی-زیمبیا کے سکرین رائٹر نیونی اور ارجنٹائن کے مصنف ڈیمین سیفرون موجود ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین