نئی سیٹلائٹ تصاویر سے معلوم ہوا ہے کہ چین نے اپنی فضائی طاقت بڑھانے کے لیے انڈیا کے ساتھ متنازع سرحد کے ساتھ اپنے ایئر فیلڈز میں کافی حد تک توسیع کی ہے اور 2020 میں خونی جھڑپ کے بعد سے اپنی جارحانہ صلاحیتوں میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔
سان فرانسسکو میں قائم ارتھ امیجنگ کمپنی پلینیٹ لیبز پی بی سی کی جانب سے لی گئی تصاویر، جن کا اشتراک دی انڈپینڈنٹ کے ساتھ کیا گیا ہے، کے مطابق بیجنگ نے کچھ علاقوں میں انڈیا کی برتری کا مقابلہ کرنے کے لیے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے ساتھ کئی نئے ایئر فیلڈز، ہیلی پیڈز، ریلوے نیٹ ورک، میزائل بیس، سڑکیں اور پل تعمیر کیے ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کی جانب سے انہی تصاویر کے تجزیے کے مطابق جنوب مغربی چین میں ہوتان، نگاری گنسا اور لہاسا کی ایئر فیلڈز کی تصاویر سے معلوم ہوا ہے کہ بیجنگ نے جنگی طیاروں کی حفاظت کے لیے نئے رن وے، قلعہ بند پناہ گاہیں اور نئی آپریشن عمارتوں کی تعمیر کے ذریعے اپنی فوجی قوت کو بڑھایا ہے۔
یہ تینوں چینی ایئر فیلڈز سٹرٹیجک لحاظ سے مغرب سے مشرق تک پھیلے ہوئے انڈیا کے شمالی علاقے میں واقع ہیں۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس یہ ایشیائی ممالک، جن کے درمیان سرحدی دعوؤں پر دشمنی کی دہائیوں پرانی تاریخ ہے، تین سالوں سے ڈی فیکٹو سرحد (ایل اے سی) پر تازہ ترین کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
وادی گالوان میں جون 2020 میں ہونے والی جھڑپوں اور خونریز لڑائی کے بعد نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان تعلقات برسوں بعد بدترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔ اس جھڑپ میں 20 انڈین اور چار چینی اہلکار مارے گئے تھے۔
گذشتہ ماہ پلینیٹ لیبز کی جانب سے جاری تصاویر کے مطابق جنوب مغربی سنکیانگ میں ہوتان ایئر فیلڈ، جو انڈیا میں لہہ سے تقریباً 400 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، پر ایک نیا رن وے، نئے طیاروں اور ملٹری آپریشنز کو سپورٹ کرنے والی عمارتوں کے ساتھ ایک نئے ایپرن کی تعمیر کی گئی ہے۔
حالیہ تصاویر میں بغیر پائلٹ کے طیارے (ڈرونز) ایئر فیلڈ سے آپریٹ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
جون 2020 کی ابتدائی تصاویر میں ایئر فیلڈ کے قریب کے علاقے میں کوئی تعمیر یا توسیع دکھائی نہیں دیتی تھی۔ مبینہ طور پر اس ایئر فیلڈ کی آخری بار 2002 میں توسیع کی گئی تھی۔
تبت کے خود مختار علاقے میں نگاری گنسا ایئر فیلڈ پینگونگ جھیل سے 200 کلومیٹر دور واقع ہے۔ اس خطے میں دونوں فوجوں کے درمیان متعدد جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
یہ ایئر فیلڈ 2010 میں فعال ہوئی اور ڈوکلام کے متنازع علاقے میں 2017 کے تعطل کے بعد اس میں توسیع ہوئی۔
جون 2020 کی سیٹلائٹ تصاویر میں جنگی جیٹ طیاروں کے ساتھ صرف ایک ہوائی جہاز کا اپرن دیکھا جا سکتا تھا تاہم اس سال مئی کی ایک تصویر میں نئے ٹیکسی وے کی تعمیر اور رن وے میں بہتری سمیت اہم پیش رفت کا انکشاف ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2023 میں کم از کم 16 طیاروں کے شیلٹرز اور ہوائی جہازوں اور فوجی آپریشن میں معاون عمارتیں بھی دیکھی گئیں۔
تبت کے خودمختار علاقے کے انتظامی دارالحکومت کا ہوائی اڈہ طویل عرصے سے شہری اور فوجی دونوں مقاصد کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ لہاسا ایئر فیلڈ توانگ سے 250 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ہے۔ یہ انڈیا کی ریاست اروناچل پردیش کا مغربی حصہ ہے جس کے مشرقی حصے پر چین اپنا دعویٰ کرتا ہے۔
سیٹلائٹ کی نئی تصاویر میں ایک نئے رن وے اور ایک نیا ایپرن دکھایا گیا ہے جس میں کم از کم 30 نئے شیلٹرز اور نئی سپورٹ عمارتیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پچھلے کچھ سالوں میں لہاسا ایئر فیلڈ کے جنوب میں واقع زیر زمین تنصیبات کی تعمیر جاری ہے۔
انٹیل لیب کے ایک محقق ڈیمین سائمن نے ہندوستان ٹائمز کو بتایا کہ ایئر فیلڈز پر ہونے والی پیش رفت خطے میں چین کے سٹریٹجک مقصد کی عکاسی کرتی ہے۔ جس کے تحت انڈیا کی برتری کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی فوجی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے۔
انہوں نے کہا: ’یہاں جاری تعمیراتی سرگرمیاں، ان مقامات پر نمایاں اور مختلف تعیناتیوں کے ساتھ جن میں ڈرونز اور جدید طیاروں کا استعمال شامل ہے، چین کی جانب سے اپنی جارحانہ صلاحیتوں کو بڑھانے کی کوششوں کی نشاندہی کرتی ہے خاص طور پر انڈیا کے ساتھ کشیدہ سرحدی صورت حال کی روشنی میں۔‘
سائمن نے مزید کہا کہ ’یہ پیش رفت بنیادی طور پر ایئر وار فیئر ڈائنامکس کو تبدیل کرنے، چین کی آپریشنل رینج کو بڑھانے اور انڈیا کی ڈیٹرنس حکمت عملی کو درپیش چیلنجز کو تسلیم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔‘
دریں اثنا، ایل اے سی کے ساتھ پیچھے ہٹنے کے لیے بات چیت میں تعطل اس ہفتے بھی جاری رہا کیونکہ نئی دہلی نے چار سال سے زیادہ عرصے میں پہلی بار ہندوستان-چین سرحدی مذاکرات کی میزبانی کی۔
بھارت کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ دونوں فریقین نے امن کی بحالی کے لیے اعلیٰ سطحی فوجی مذاکرات کا 19 واں دور جلد منعقد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریقوں نے بھارت چین سرحدی علاقوں کے مغربی سیکٹر میں ایل اے سی پر صورت حال کا جائزہ لیا اور بقیہ علاقوں سے دست برداری کی تجاویز پر کھل کر اور کھلے انداز میں تبادلہ خیال کیا۔
© The Independent