سیاسی جوڑ توڑ، کئی دھڑے متحرک لیکن ن لیگ کیوں خاموش؟

پیپلزپارٹی ہو، مسلم لیگ ق یا جہانگیر ترین گروپ سب ہی پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز، جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو 25 جولائی 2022 کو اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ملک میں سیاسی ہلچل تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)  کی حکومت تبدیل ہونے کے بعد سے جاری تھی لیکن نو مئی کے جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کے بعد اس میں تیزی آئی ہے اور پی ٹی آئی کے اراکین مختلف سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں، لیکن مسلم لیگ ن کے دروازے ان منحرفین کے لیے بند اور جماعت خاموش دکھائی دیتی ہے۔

پی ٹی آئی کے سابق اراکین اسمبلی کا جوق در جوق پارٹی چھوڑنے کا سلسلہ جب سے شروع ہوا ہے، اس وقت سے سیاسی قائدین کافی متحرک دکھائی دے رہے ہیں اور سب سے زیادہ توجہ پنجاب پر مرکوز ہے۔

پیپلزپارٹی ہو، مسلم لیگ ق یا جہانگیر ترین گروپ سب ہی پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی جانب سے بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ آپس میں مل کر الگ دھڑا بنائیں گے۔

پنجاب میں نو مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور متحرک کارکنوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے جس کی وجہ سے پارٹی قیادت نے سرگرمیاں محدود کر دی ہیں۔ مراد سعید سمیت کئی رہنما روپوش ہیں اور اپنے بیانات میں اپنی گرفتاری کے خدشات اور جان کو لاحق خطرات کے بارے میں بیان دیتے رہتے ہیں۔

اُدھر ٹی وی چینلز پر عمران خان کی تصویر یا نام چلانے پر بھی غیر اعلانیہ پابندی لگی ہوئی ہے۔

جیسے جیسے وفاقی حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے کا وقت قریب آ رہا ہے، پنجاب میں سیاسی جماعتیں خود کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لیے جوڑ توڑ کر رہی ہیں۔

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری بھی کئی دن سے لاہور میں موجود ہیں اور صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں سے روزانہ کی بنیاد پر سیاسی شمولیتوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ ق کی قیادت بھی سیاسی رہنماؤں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے کوشاں ہے، جہانگیر ترین بھی پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کے منتظر دکھائی دیتے ہیں اور اسی بنیاد پر نئی پارٹی بنا کر سیاسی میدان میں اترنے کا تاثر دے رہے ہیں۔

اس ساری صورت حال میں مسلم لیگ ن خاموش دکھائی دے رہی ہے۔ ن لیگی رہنماؤں نے تو یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی جگہ نہیں، ان کے اپنے امیدوار پورے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بے شک سیاسی ہوا پنجاب میں سب سے تیز چل رہی ہے اور صورت حال ابھی واضح نہیں لیکن ابھی تک ن لیگ کو نقصان ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

جوڑ توڑ کا مقابلہ

پنجاب میں سب سے زیادہ سیاسی جوڑ توڑ پیپلز پارٹی، ترین گروپ اور مسلم لیگ ق کے درمیان ہو رہا ہے۔ تینوں پر امید ہیں کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والے سب سے زیادہ ان ہی کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں اور مزید بھی ہوں گے۔

پیپلز پارٹی سینٹرل پنجاب کے جنرل سیکریٹری حسن مرتضیٰ کے بقول: ’اس وقت کئی سابق اراکین صوبائی و قومی اسمبلی پی پی پی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں اور کئی رابطے میں ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ہمارا فوکس ویسے تو پورا پنجاب ہے لیکن زیادہ توجہ جنوبی پنجاب کی طرف دے رہے ہیں۔ سینٹرل پنجاب کے ساتھ جنوبی پنجاب کے لوگوں کی شمولیت بھی جاری ہے جن میں زیادہ تر لوگ پی ٹی آئی کے سابق اراکین یا ٹکٹ ہولڈرز ہیں۔‘

حسن مرتضیٰ کے مطابق: ’ہماری طرف سے کسی پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا جا رہا، لوگ اپنی مرضی سے پی پی پی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ماضی میں پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں گئے تھے۔ آئندہ انتخاب میں پنجاب سے بھر پور الیکشن لڑنے کی تیاری ہے زیادہ سے زیادہ امیدوار میدان میں اتاریں گے۔‘

ق لیگ کے چیف آرگنائزر چوہدری محمد سرور کے مطابق: ’کافی لوگ ہم سے رابطے کر رہے ہیں، ملاقاتیں بھی ہورہی ہیں اور شمولیتیں بھی ہو رہی ہیں۔ جلد ہی پنجاب سے بڑے نام ق لیگ میں شامل ہوں گے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’چوہدری شجاعت کی قیادت پر پنجاب کے سیاست دانوں کو بھرپور اعتماد ہے اس لیے وہ ہمارے ساتھ مل کر سیاست کرنا چاہتے ہیں، کئی لوگوں سے ہم نے رابطے کیے جبکہ بہت لوگ ہم سے رابطے کر رہے ہیں تاہم بات چیت جاری ہے، پھر شمولیتوں کا باقائدہ اعلان ہوگا۔‘

2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی فتح کے محرک سمجھے جانے والے جہانگیر ترین بھی جنوبی پنجاب میں رابطے کر رہے ہیں۔ توقع ہے کہ ان کی زیر قیادت سیاسی گروپ عنقریب ایک سیاسی جماعت بن ابھرے گا۔

جہانگیر ترین گروپ کے رہنما اجمل چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے کافی ورکنگ مکمل کر لی ہے، مشاورت کا عمل آخری مراحل میں ہے بہت لوگ شامل ہونا چاہتے ہیں اور کئی ہو بھی چکے ہیں۔ نئی جماعت بنانے کے حوالے سے بھی مشاورت ہوچکی ہے، جلد پارٹی کا نام بھی فائنل ہوجائے گا پھر باقائدہ اعلان کریں گے۔‘

دوسری جانب تحریک انصاف کے سابق رہنما فواد چوہدری اور ہاشم ڈوگر بھی بیان دے چکے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کا الگ گروپ بنا کر آزاد الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ تاہم اس دعوی پر عمل درآمد ابھی تک دکھائی نہیں دیا۔

ن لیگ کیوں خاموش ہے؟

مسلم لیگ ن کی جانب سے ابھی تک کوئی سیاسی ہلچل سامنے نہیں آئی جس کی کوئی خاص وجہ بھی نہیں بتائی جا رہی۔

اس معاملے پر پارٹی رہنما احسن اقبال نے ایک بیان میں کہا کہ ’ن لیگ پنجاب میں کسی امیدوار کو شامل کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیوں کہ ن لیگ کے پاس ہر حلقے میں ایک سے زیادہ امیدوار موجود ہیں۔‘

مسلم لیگ ن کے رہنما آصف کرمانی کے مطابق: ’پارٹی پالیسی کا تو اندازہ نہیں البتہ ان کی ذاتی رائے میں ن لیگ کو پی ٹی آئی چھوڑنے والے کسی سابق رکن کو شامل نہ کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کے 20 منحرف اراکین کو ٹکٹ دیے تو ہمارے ووٹرز نے انہیں تسلیم نہیں کیا اسی لیے وہ ہار گئے لہذا ہمیں اپنے امیدوار میدان میں اتارنے چاہییں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ن لیگ کے پاس کئی کئی سالوں سے پارٹی کے ساتھ وفاداری نبھانے اور قربانیاں دینے والے امیدوار موجود ہیں جو کامیابی کے لیے بہترین چوائس ہیں۔‘

سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے

سیاسی تجزیہ کار سلیم بخاری کے بقول: ’مسلم لیگ ن پنجاب میں اپنے امیدواروں کو چھوڑ کر نئے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا خطرہ اب نہیں لے گی کیوں کہ اب ان کی پوزیشن بھی پہلے سے بہتر ہے اور مد قابل تحریک انصاف بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے۔‘

سیاست دانوں کی ’ونڈو شاپنگ‘

پنجاب میں مقابلے کی فضا میں کئی سیاست دان فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ انہیں کس جماعت میں شامل ہونا چاہیے۔ میل ملاقاتوں یا رابطوں کے بعد کوئی باضابطہ اعلان سامنے نہیں آ رہا۔ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس نے پہلے ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت سے چوہدری سرور کے ہمراہ ملاقات کی مگر انہوں نے شمولیت کا اعلان نہیں کیا بلکہ میڈیا کے سامنے اعلان کیا کہ وہ چوہدری شجاعت کا احترام کرتے ہیں، ان سے سیاسی مشاورت جاری رہے گی تاہم شمولیت اختیار نہیں کر رہے۔

اس کے بعد وہ جہانگیر ترین گروپ سے ملے اور وہاں ملاقات کے بعد بھی انہوں نے یہی بیان دیا کہ وہ ابھی مشاورت کرنے آئے تھے ترین گروپ کے اتحاد میں شامل نہیں ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق ان کے پیپلزپارٹی سے بھی رابطے جاری ہیں۔

اسی طرح فواد چوہدری چند دن پہلے شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل پہنچ گئے اور اعلان کیا کہ وہ پی ٹی آئی رہنما اسد عمر، اسد قیصر اور دیگر سے رابطے میں ہیں۔

اس حوالے سے کوشش کر رہے کہ الگ گروپ بنا کر حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے مگر اس کے بعد اسد قیصر اور اسد عمر نے رابطوں کی تردید کر دی جبکہ شاہ محمود کی صاحبزادی نے بھی ان سے ملاقات کے بعد بیان دیا کہ ان کے والد کا کہنا ہے انہوں نے فواد چوہدری سے کوئی سیاسی گفتگو نہیں کی۔

’کنگز پارٹی‘ کا تاثر اور حقائق

سیاسی تجزیہ کار سلیم بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ کے بعد ایک تاثر دیا جا رہا ہے کہ شاید ملک میں کوئی کنگز پارٹی بنائی جارہی ہے۔ یہ تاثر جہانگیر ترین اور علیم خان کی قیادت میں ان کے گروپ کی جانب سے دیا جا رہا ہے۔‘

سلیم بخاری کے بقول: ’ملک میں یا پنجاب میں نہ تو کنگز پارٹی کی کوئی گنجائش دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے اقتدار میں ہوتے ہوئے یہ ممکن ہے، کیوں کہ کنگز پارٹیاں ماضی میں بھی ہمیشہ مارشل لا یا ایمرجنسی نافذ کرنے کی صورت میں فوجی قیادتوں کی جانب سے عارضی پارلیمانی نظام چلانے کے لیے بنائی گئیں، لہذا اب نہ تو ایسی کوئی صورت حال ہے اور نہ اس کی ضرورت پیش آنے کا امکان ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’دوسری بات یہ ہے کہ جہانگیر ترین اور علیم خان کو پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں تنگ کر کے اور ان کے خلاف کارروائی کر کے نظر انداز کیا گیا، لہذا وہ کوئی گروپ یا پارٹی اپنے طور پر بنا کر الیکشن میں آتے بھی ہیں تو پی ٹی آئی کے ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔

’اس کے علاوہ گذشتہ کئی ہفتوں کی کوشش کے باوجود یہ گروپ ابھی تک اپنے پرانے ساتھیوں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ پرانے ساتھیوں کے علاوہ وہ لوگ دلچسپی رکھتے ہیں جو پہلے بھی ترین اور علیم خان کے کہنے پر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔‘

سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ’ترین سمجھدار کاروباری شخصیت ہیں انہیں ابھی تک خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی، نہ ایسا یقین ہے ورنہ وہ فوری طور پر پارٹی رجسٹر کرا کے تیزی سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کرتے نظر آتے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ اپنے دھڑے کے ساتھ الیکشن لڑ سکتے ہیں تاکہ پریشر گروپ کے طور پر کم از کم پنجاب میں موجود ہوں۔‘

تجزیہ کار حسن عسکری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک میں اس وقت کنگز پارٹی کی گنائش نظر نہیں آرہی البتہ سیاسی گروپ ضرور جنم لے رہے ہیں ان کا وجود بھی بڑی پارٹیوں کے ساتھ انتخابی مہم کے دوران معلوم ہوگا کتنا موثر ہے۔‘

جہانگیر ترین گروپ کی جانب سے سیاسی ربطوں کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو عون چوہدری، سردار تنویر الیاس اور اسحاق خاکوانی پر مشتمل ہے۔

کمیٹی پی ٹی آئی چھوڑنے والے رہنماؤں کو گروپ میں شمولیت کی باقاعدہ دعوت دے گی۔

پنجاب کا ممکنہ سیاسی منظرنامہ

صوبے کے سابق نگران وزیراعلیٰ حسن عسکری کے بقول: ’جس طرح تحریک انصاف کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کوشش کی جا رہی ہے اور ان کے اہم رہنما بھی پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ اس سے مخالف سیاسی جماعتوں کا ان کے لوگوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کرنا فطری ہے۔ لیکن ایسی صورت حال میں حتمی طور پر کسی کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کو پہلے ووٹ عمران خان کے نام پر پڑا لیکن اب دیکھنا ہوگا کہ ان امیدواروں کو کسی اور پلیٹ فارم سے بھی کامیابی ملتی ہے یا نہیں۔ دوسری طرف پرانی جماعتیں پھر میدان میں ہیں تو لوگ نئے بننے والے گروپوں یا پارٹیوں کو ووٹ دینے پر رضا مند ہوں گے یا نہیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا۔‘

حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ ’پیپلز پارٹی کو لوگ پہلے سے جانتے ہیں، نئے افراد شامل کرنے سے وہ زیادہ اہمیت کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ پھر جب پارٹی قیادت وہی ہے جسے لوگ پہلے ہی جانتے ہیں۔ مسلم لیگ ق ٹوٹنے کی وجہ سے اتنی مضبوط بھی نہیں رہی جتنی گذشتہ انتخابات میں تھی۔ پی ٹی آئی کے لوگ بھی الگ دھڑا بنا کر سیاست کریں گے تو وہ بھی ووٹ تقسیم کریں گے۔

’اس ساری صورت حال میں دکھائی یہی دے رہا کہ مسلم لیگ ن کو پنجاب میں سیاسی چیلنج کا سامنا نہیں مگر حکومتی کارکردگی کا کتنا اثر پڑتا ہے یہ دیکھنا ہوگا۔ الیکشن کا اعلان ہونے کے بعد کافی کچھ سامنے آئے گا۔‘

سلیم بخاری کے مطابق: ’ابھی تک پنجاب میں ن لیگ اور پی ٹی آئی میں ہی مقابلہ تھا لیکن اب تحریک انصاف کو جس طرح کی مشکلات کا سامنا ہے اس سے لگتا ہے کہ شاید ان کے لیے سیاست کرنا ممکن نہ رہے اور جس کے نام پر پارٹی بنی یعنی عمران خان انہیں بھی سنگین مقدمات کا سامنا ہے۔

’لہذا اس سے کوئی کتنا فائدہ اٹھا سکتا ہے یہ منظر نامہ ابھی واضح نہیں لیکن ایک بات ضرور ہے کہ پنجاب کو ن لیگ کا گڑھ مانا جاتا ہے اور اگر نواز شریف واپس آتے ہیں تو پنجاب میں ن لیگ مزید مضبوط ہوجائے گی، باقی صرف نمبر یا دوسری پوزیشن کے رول کا ہی مقابلہ بچے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست