سیاست دان جیل کیوں جاتے ہیں؟

کسی سیاست دان پر مقدمہ بنتا ہے تو انہیں یہ سہولت دستیاب نہیں ہوتی کہ ان سے پوچھا جائے آپ منصب سے مستعفی ہو کر گھر جانا پسند کریں گے یا قانون کا سامنا کریں گے۔ ان پر ہر حال میں قانون لاگو ہوتا ہے اور اپنی پوری قوت قاہرہ سے لاگو ہوتا ہے۔

28 جنوری 2021 کی اس تصویر میں پولیس کی ایک گاڑی سینٹرل جیل کراچی سے نکلتے ہوئے دیکھی جا سکتی ہے (اے ایف پی)

اہل سیاست پر جب یہ گرہ لگائی جاتی ہے کہ جیلوں میں رہنے والے اب قانون سازی کر رہے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیاست دان جیلوں میں کیوں جاتے ہیں؟ اس لیے کہ ان کا نامہ اعمال بہت سیاہ ہوتا ہے یا اس لیے کہ انہیں جیل بھیجنا بہت آسان ہوتا ہے؟

کیا وجہ ہے کہ سیاست دان جیل اور مقدمات سے بچ نہیں پائے، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کو بھی مقدمات اور گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا لیکن آج تک کسی جج پر نہ مقدمہ ہوا، نہ گرفتاری ہوئی نہ وہ جیل گئے۔ یہ حسن کردار ہے یا حسن انتظام؟

سیاست دان پھانسی پا جاتے ہیں، ہائی جیکر قرار پاتے ہیں اور عشرے جیل میں گزار دیتے ہیں۔ آزادی رائے کے نام پر وزیراعظم تک کی پگڑی اچھالنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے، مگر توہین پارلیمان کے کسی قانون کے نام پر خوف کے ڈنڈے سے انہوں نے معاشرے کو نہیں ہانکا۔ 

کسی سیاست دان پر مقدمہ بنتا ہے تو انہیں یہ سہولت دستیاب نہیں ہوتی کہ ان سے پوچھا جائے آپ منصب سے مستعفی ہو کر گھر جانا پسند کریں گے یا قانون کا سامنا کریں گے۔ ان پر ہر حال میں قانون لاگو ہوتا ہے اور اپنی پوری قوت قاہرہ سے لاگو ہوتا ہے۔

سیاست دان جذباتی بھی نہیں ہوتے۔ باپ کو پھانسی ہوتی ہے تو بیٹی لاش نہیں دیکھ سکتی مگر وہ جذباتی نہیں ہوتی اور باپ بیٹی ایک ساتھ گرفتاری دیتے ہیں لیکن شدت جذبات سے ان کی آواز نہیں بھرا جاتی۔ عشروں کی جیل بھی ان کے چہرے سے مسکراہٹ نہیں چھین سکتی۔

سیاست دان پر سوال اٹھتا ہے تو سارا معاشرہ انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وزیراعظم نے کہا ہو میری کابینہ پر سوال اٹھانے والوں کو میرا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

سیاست دان نہ ہوتے تو آزادی رائے کو بھی تپ دق، تشنج، کالی کھانسی اور خسرہ جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہو جاتیں۔ یہ صرف سیاست دان ہیں، جن سے ٹاک شوز میں سوالات ہو سکتے ہیں، جن پر تنقید ہو سکتی ہے، حتیٰ کہ صحافی وزیراعظم کے سامنے بیٹھ کر ان کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے تک کا ’حریت ناک‘ مظاہرہ کر سکتا ہے۔

سیاست دان ہی نہیں، بیوروکریٹ اور جرنیل بھی کسی نہ کسی درجے میں قانون کی گرفت میں آ گئے لیکن قانون کسی سابق جج کی طرف دیکھنے کی گستاخی کا ارتکاب نہیں کر سکا۔

ریکوڈک پر عدالتی فیصلے کا پاکستان کو کتنا نقصان ہوا، اس پر گرفت تو دور کی بات ہے آج تک ڈھنگ کی بحث بھی نہیں ہو سکی۔

 بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والے اس عدالتی قتل کا اعتراف کر چکے لیکن اس کے باوجود قانون ان کی دہلیز پر دستک نہیں دے سکا۔ بھٹو کیس پر صدارتی ریفرنس آیا تو اس کا جواب ابھی تک نہیں مل سکا۔

نیب نے سر سے پاؤں تک احتساب کیا تو دل دہلا دینے والی کہانیاں سامنے آئیں لیکن چونکہ نیب کے سربراہ سابق جسٹس تھے تو ہر سو حد ادب کا سناٹا طاری رہا۔ تصور ہی کیا جا سکتا ہے، یہ  منصب کسی سیاست دان کے پاس ہوتا اور یہ الزامات کسی سیاست دان پر لگتے تو آزادی رائے کیسے اچھل کود کر رہی ہوتی۔

آڈیو ٹیپس آئیں تو جسٹس قیوم صاحب کو مستعفی ہونا پڑ گیا لیکن قانون ان سے کوئی جواب طلبی کرنے کی گستاخی نہیں کر سکا۔ 

ارسلان افتخار کی شکل میں بیٹے کا معاملہ سامنے آیا تو باپ نے اپنی عدالت میں لگا لیا۔ یہ ’چین آف کمانڈ‘  کے زمانے تھے، ایک تو جانثار دستیاب تھے اور اوپر سے بے شمار تھے، چنانچہ توہین عدالت کے قانون سے سہمے معاشرے میں کوئی یہ سوال نہ پوچھ سکا کہ بیٹے کا مقدمہ باپ کیسے سن سکتا ہے۔ آج تک کوئی یہ سوال بھی نہیں اٹھا سکا کہ اس مقدمے کا انجام کیا ہوا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئین شکنی پر آئین شکن کو تین سال مزید آئین شکنی کی اجازت عدالت نے دی تھی۔ یہ وہ حق تھا جو خود عدالت کے پاس بھی موجود نہیں تھا۔ آرٹیکل 6 کے مطابق یہ بھی سنگین غداری ہے۔ آرٹیکل 12 کی ذیلی دفعہ دو کے تحت اس قانون کا اطلاق 23 مارچ 1956 سے ہو گا۔

 آئین میں یہ بھی لکھا ہے کہ پارلیمان سے توثیق کے باوجود جرم جرم ہی رہے گا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جنرل مشرف پر تو قانون کسی نہ کسی درجے میں لاگو ہو جاتا ہے، آئین شکنی کا ارتکاب کرنے والے جج آج بھی قانون سے محفوظ اور مامون ہیں۔

یہ صرف سیاست دان ہیں جو عوام کو جوابدہ ہیں۔ کوئی سابق جج اپنے نامہ اعمال کا جواب دینے عوام کے سامنے نہیں آتا۔ نظریہ ضرورت آ گیا تو آ گیا، بھٹو کو پھانسی ہو گئی تو ہو گئی۔ کوئی  سوال نہیں، کوئی جواب نہیں۔ حد ادب، حد ادب۔

سیاست دان جیل اس لیے جاتے ہیں کہ انہیں جیل بھیجنا آسان بہت ہوتا ہے۔ ان کا میڈیا ٹرائل یاروں کا تفنن طبع بن جاتا ہے، ان کی کردار کشی پر سب کو امان ہوتی ہے۔ کوئی ڈر نہیں ہوتا، کوئی خوف نہیں ہوتا۔

 چنانچہ آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں کہ بھٹو صاحب پھانسی پا گئے لیکن انہوں نے عدلیہ کے احترام میں فرق نہیں آنے دیا۔ یہ مثال کوئی نہیں دیتا کہ بھٹو کے مقدمے میں فیصلے میں کتنی دیانت موجود تھی اور یہ فیصلہ آج تک عدالتی نظیر کے طور پر کہیں بھی کیوں پیش نہیں کیا جا سکا۔

حد ادب میں بہت سارے سخن ہائے گفتنی نا گفتہ رہ جاتے ہیں۔ میں بھی اسی خوف اور تذبذب کا شکار ہوں، لیکن یہ بات طے ہے کہ سیاست دان جیلوں میں جاتے ہیں کیونکہ انہیں آسانی سے جیل بھیجا جا سکتا ہے۔

مگر یہ چیز سیاست دانوں کے قانون سازی کے حق کو ساقط نہیں کرتی۔ قانون سازی کا حق پارلیمان کا ہے۔ قانون سازی پارلیمان ہی کرے گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر