بپرجوئے صدی کا شدید ترین سمندری طوفان ہے: ماہر موسمیات

ماہرین موسمیات کی نظر میں بپرجوئے 1999 میں آنے والے شدید طوفان کی طرح ہے۔

پاکستان کے سندھ اور بلوچستان سے متصل ساحلی علاقوں کو سمندری طوفان بپر جوئے کے خطرے کا سامنا ہے جو ہمسایہ ملک انڈیا کے ساحلوں سے شدت سے ٹکرا چکا ہے۔

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل صاحبزاد خان سمجھتے ہیں کہ یہ طوفان بھی اسی شدت کا ہے، جس طرح کا 1999 میں سمندری طوفان پاکستان میں سندھ کے ساحلی علاقوں سے ٹکرایا تھا۔

صاحبزاد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’16 مئی 1999 کو آنے والا طوفان 22 مئی کو ختم ہوا تھا، جس نے بڑی تباہی مچائی تھی، اس وقت بھی ایسا ہی ماحول بنا تھا تاہم بپر جوئے اس صدی کا سب سے خطرناک طوفان ہے۔‘

سمندری طوفان سے سندھ کے ساحلی علاقے کیٹی بندر، ٹھٹھہ اور عمر کوٹ کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

حکومت بلوچستان کے حکام کے مطابق صوبے میں اس کی شدت اب تک کم دکھائی دے رہی ہے تاہم اس کے کچھ اثرات گوادر کے علاقے اورماڑہ کے ساحل پر نظر آرہے ہیں جہاں سمندر کا پانی کچھ گھروں داخل ہوا ہے۔

پاکستان میں سمندری طوفانوں کی تاریخ 

سائیکلون دو اے (1964)

12 جون 1964 کو یہ سمندری طوفان نے سندھ کے علاقے حیدرآباد اور تھرپارکر سے ٹکرایا تھا جس کے نتیجے میں 450 افراد جان سے گئے تھے اور چار لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔ یہ طوفان آٹھ جون 1964 کو انڈین ریاست گجرات کے قریب نمودار ہوا تھا۔

سائیکلون 13 اے (1965)

15 دسمبر کو آنے والا یہ طوفان کراچی کے ساحلی علاقوں سے ٹکرایا تھا جس کے نتیجے میں 10 ہزار افراد کی اموات ہوئی تھیں۔ پاکستان ویدر پورٹل کے مطابق دسمبر کے مہینے میں آنے والا یہ طوفان انتہائی غیر معمولی تھا۔

سائیکلون (1993)

14 نومبر کو کیٹگری ون کا سمندری طوفان آیا تھا جس نے سندھ کو متاثر کیا تھا۔ اس کے نیتجے میں 609 افراد جان سے گئے تھے اور دو لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے۔ متاثرہ علاقوں میں کیٹی بندر، ٹھٹھہ اور کراچی شامل تھے۔

سائیکلون دو اے (1999)

یہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے شدید طوفانوں میں سے ایک تھا۔ اس کا آغاز 20 مئی کو ہوا اور اختتام 22 مئی کو ہوا تھا۔

اس نے بدین، ٹھٹھہ کے ساحلی علاقوں کو متاثر کیا تھا، یہ کیٹگری تھری کا طوفان تھا، اس میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 20 مئی 1999 کو آنے والے اس طوفان کے نیتجے میں 231 افراد جان سے گئے اور 155 زخمی ہوئے تھے۔ نو ہزار سے زیادہ افراد بے گھر اور چھ لاکھ 57 ہزار متاثر ہوئے تھے۔

سائیکلون یمی ان (2007)

یہ طوفان صوبہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں مکران، اورماڑہ، پسنی سے ٹکرایا تھا، کراچی اس سے محفوظ رہا تھا لیکن اس کے نتیجے میں 200 افراد کی موت ہوئی تھی۔

سائیکلون گونو (2007)

یکم جون کو شروع ہونے والے اس سمندری طوفان کا اختتام سات جون کو ہوا تھا، جو بحیرہ عرب میں سب سے طاقتور طوفان تھا، جو عمان سے ٹکرانے کے بعد رخ تبدیل کرکے ایران گیا تھا، یہ کیٹگری پانچ کا طوفان تھا۔

سائیکلون پیٹ (2010)

پیٹ تھائی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیرے کے ہیں، اس کا آغاز یکم جون کو ہوا، جو کراچی سے 1100 کلومیٹر دور تھا، تین جون کو اس نے شمالی عمان کو ہٹ کیا اور اس کے دوسرے دن پاکستان کا رخ کیا تھا۔ چھ جون کو یہ طوفان کراچی اور کیٹی بندر سے ٹکرایا جس کے نیتجے میں 15 افراد جان سے گئے۔

سائیکلون نیلوفر (2014)

اس سمندری طوفان کا نام پاکستان نے نیلوفر رکھا تھا لیکن یہ پاکستان اور انڈیا سے ٹکرائے بغیر گزر گیا تھا، کراچی میں معمولی بارش اور اندرون سندھ کچھ بارشیں ہوئیں تھیں۔

سائیکلون کائر (2019)

یہ طوفان گوادر، پسنی، اورماڑہ سے ٹکرایا تھا۔ اس کے علاوہ گڈانی کے ساحل پر ایک گاؤں میں سمندری پانی داخل ہوا تھا، سندھ میں بھی کچھ دیہات متاثر ہوئے تھے۔

سائیکلون تکتی (2021)

یہ سمندری طوفان  مئی 2021 میں انڈیا سے ٹکرایا تھا۔ کراچی میں اس کے اثرات کی وجہ سے مٹی کا طوفان آیا تھا، اندورن سندھ طوفانی ہواؤں کے باعث چار افراد ہلاک ہوئےتھے۔

سائیکلون شاہین (2021)

اکتوبر کے مہینے میں آنے والا یہ طوفان سندھ کے ساحلی علاقوں سے ٹکرایا تھا اور پھر رخ موڑ کر عمان چلا گیا تھا۔

اس نے بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو بھی متاثر کیا، تیز ہواؤں کے ساتھ کم اور درمیانی درجے کی بارشیں ہوئیں، کراچی میں تیز بارش ہوئی تھی۔

سائیکلون بپرجوئے (2023)

محکمہ موسمیات کے 12 جون کو جاری کیے جانے والے الرٹ کے مطابق انتہائی شدید سمندری طوفان بپرجوئے مشرقی اور وسطی بحیرہ عرب میں موجود ہے جو کراچی کے جنوب میں 600 کلو میٹراور ٹھٹھہ کے جنوب میں 580 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔

یہ طوفان 14 جون بدھ کی صبح تک مزید شمال کی جانب بڑھے گا جس کے باعث ملک کے بالائی علاقوں میں مغربی ہوائیں داخل ہونے کا امکان ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محکمہ کے رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 17 جون تک ٹھٹھہ، سجاول، بدین، تھرپارکر، میرپور خاص اور عمر کوٹ میں 80 سے 120 کلو میٹر فی گھنٹہ کے رفتار سے آندھی اور تیز ہوائیں چلنے اور گرج چمک کے ساتھ طوفانی بارش کا امکان ہے۔

محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل صاحبزاد خان نے کہا اس کے بعد 2010 میں بھی ایک طوفان آیا تھا، جو گوادر کے ساحلی علاقوں سے ٹکرایا تھا، تاہم کی اس کی شدت زیادہ نہیں تھی۔ 1999 کے طوفان کے باعث 6400 افراد جان سے گئے تھے اور 90 لاکھ کے قریب متاثر ہوئے تھے۔

صاحبزاد خان نے بتایا: ’موسمیاتی تپش کے باعث سمندری طوفان بنتا ہے، دنیا میں عالمی حدت میں صنعتوں اور دوسرے عوامل کے باعث اضافہ ہوا، جو موسمیاتی تبدیلی کا باعث بھی بن رہا ہے، اس کے اثرات بھی اس پرمرتب ہو رہے ہیں جو سمندری طوفان کا باعث بن رہے ہیں۔‘

ماہر موسمیات صاحبزاد خان نے مزید بتایا کہ پاکستان دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے 10 ممالک میں سب سے پہلے نمبر پر ہے، جس طرح ہم نے پہلے سیلاب اور شدید بارشوں کا مشاہدہ کیا، جو اس تبدیلی کی وجہ سے ہم پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا بارشیں سیلاب، اور سمندری طوفان ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات ہیں۔ احتیاطی تدابیر کے تحت لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرکے انسانی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات