مودی حکومت کی انٹرنیٹ بندش سے غریب طبقہ زیادہ متاثر: رپورٹ

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا نے 2018 سے دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں انٹرنیٹ تک رسائی کو زیادہ روکا ہے۔

سری نگر کے پریس کلب میں صحافی تین اکتوبر 2019 کو انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی بندش کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں (اے ایف پی) 

ایک رپورٹ کے مطابق 2019 اور 2022 کے درمیان انڈیا میں نریندر مودی حکومت کی جانب سے سو سے زائد مرتبہ انٹرنیٹ بندشوں کے باعث غریبوں اور کمزور طبقے کے کام کے مواقع محدود ہوئے، جس سے ان کی خوراک اور معاش تک رسائی کو نقصان پہنچا ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام انڈیا کی مرکزی حکومت کے فلیگ شپ پروگرام ’ڈیجیٹل انڈیا‘ سے براہ راست متصادم ہے جس کا مقصد پورے ملک کے کروڑوں شہریوں کی مدد کرنا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا نے 2018 سے دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں انٹرنیٹ تک رسائی کو زیادہ روکا، جسے محققین نے غلط اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی بندش سے انڈیا میں غریب طبقے کو کئی طرح سے نقصان پہنچا ہے جس میں انہیں سرکاری ملازمت کی سکیم کے تحت اپنی حاضری لگانے سے روکنا بھی شامل ہے۔ اس نظام سے ملازمین ملک بھر کے دیہاتوں اور قصبوں میں یومیہ اجرت حاصل کرتے تھے۔

دی انڈپینڈنٹ نے رپورٹ پر ردعمل کے لیے دہلی حکومت کی آئی ٹی وزارت سے رابطہ کیا ہے۔

راجستھان میں پانچ بچوں کے ساتھ ایک 35 سالہ دلت خاتون نے ایچ آر ڈبلیو کو بتایا: ’جب انٹرنیٹ بند ہو جاتا ہے تو میرے پاس کوئی کام نہیں ہوتا، مجھے تنخواہ نہیں ملتی، میں اپنے اکاؤنٹ سے کوئی رقم تک نہیں نکال پاتی اور خوراک اور راشن بھی حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہوں۔‘

ایچ آر ڈبلیو کی ایشیا کے لیے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر جے شری باجوریا نے کہا کہ انڈیا میں حکام نے ایک ایسے وقت میں انٹرنیٹ کی بندش کو ’پہلے سے طے شدہ پولیسنگ اقدامات‘ کے طور پر استعمال کیا ہے جب مودی حکومت انٹرنیٹ کو زندگی کے ہر پہلو کے لیے بنیادی ضرورت بنانے پر زور دے رہی ہے۔‘

انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’انٹرنیٹ تک رسائی کو منقطع کرنا سکیورٹی اقدامات کے لیے آخری حربہ ہونا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ لوگ اپنی روزی روٹی اور بنیادی حقوق سے محروم نہ ہوں۔‘

محققین نے انڈیا کے بیشتر حصوں، جیسے کشمیر، راجستھان، ہریانہ، جھار کھنڈ، آسام، منی پور اور میگھالیہ کے 70 سے زائد لوگوں سے بات کی جن میں انٹرنیٹ کی بندش سے براہ راست متاثر ہونے والے افراد بھی شامل ہیں۔

ایچ آر ڈبلیو اور انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن نے 2019 اور دسمبر 2022 کے درمیان کم از کم 127 انٹرنیٹ کی مکمل بندش کی کی نشاندہی کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو کسی بھی دوسری انڈین ریاست کے مقابلے میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ بندش کا سامنا کرنا پڑا، جس سے مقامی لوگوں انٹرنیٹ سے متعلق کسی بھی سرگرمی سے محروم ہو گئے جیسے بینکنگ یا سپلائی آرڈر وغیرہ۔

ایک کشمیری پیشہ ور نے اس صورت حال کو ’قبرستان کی خاموشی‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔

پاکستان کی سرحد سے متصل متنازع خطے میں اگست 2019 میں مودی حکومت کی جانب سے اس کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد 550 دن سے زیادہ انٹرنیٹ کی مکمل طور پر بندش رہی۔

کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق چھ ماہ تک جاری مواصلاتی بندش سے تقریبا ڈھائی ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور قریباً پانچ لاکھ سے زائد افراد اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ان تین سالوں کے دوران کل 28 میں سے 18 ریاستوں میں کم از کم ایک بار انٹرنیٹ مکمل طور پر بندش کا شکار رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں اگست 2019 میں شروع ہونے والی طویل انٹرنیٹ بندش کے دوران صحافی اپنے ذرائع یا ایڈیٹرز سے رابطہ کرنے یا اپنی رپورٹ فائل کرنے سے قاصر تھے جس سے پریس کی آزادی بری طرح متاثر ہوئی۔‘

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مودی انتظامیہ نے ایک پیش کش کی جس کے تحت ایک نجی ہوٹل میں میڈیا سنٹر میں ابتدائی طور پر صرف چار ٹرمینلز بنائے گئے جس نے وادی میں کام کرنے والے تقریباً 300 صحافیوں کے لیے انٹرنیٹ کنیکشن بحال کیے تھے۔

ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’اگر وہ حکومت کے میڈیا سنٹر کو استعمال کرنے کا انتخاب کرتے تو اس سے ان کی نگرانی ہوتی اور وہ اپنے ذرائع کو چھپانے میں ناکام رہتے۔

ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ کی بندش کو انڈیا میں ریاستی حکومتوں کی طرف سے بھی ایک ’ٹول‘ کے طور پر بھی استعمال کیا گیا جنہوں نے مظاہروں کو روکنے یا مظاہروں کے جواب میں مواصلات کے سب سے بڑے چینلز میں سے ایک کے بلیک آؤٹ کا استعمال کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ طلبہ کو سکول یا سرکاری ملازمتوں کے امتحانات میں دھوکہ دہی سے روکنے کے لیے مزید 37 انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کیے گئے۔

ریاستی سطح پر کم از کم 18 انٹرنیٹ بندش فرقہ وارانہ تشدد کے کے ردعمل کا نتیجہ تھے اور اتنی ہی تعداد میں بندش کو امن و امان کے خدشات کے لیے استعمال کیا گیا۔

تاہم انڈیا میں انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کے لیے ریاستی انتظامیہ کو شٹ ڈاؤن کے احکامات جاری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو سپریم کورٹ کی طرف سے مانگے گئے 18 میں سے 11 ریاستوں نے پیش نہیں کیے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوسری ریاستوں نے عوامی تحفظ کے لیے خطرے کا جواز پیش نہیں کیا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا