شیل پاکستان سے کیوں جا رہا ہے؟

تیل اور گیس کے کاروبار سے منسلک شیل پاکستان کی پیرنٹ کمپنی شیل پیٹرولیم کمپنی برطانیہ نے اپنے 77 فیصد حصص فروخت کر کے ملک سے نکلنے کا عندیہ دیا ہے۔

پاکستان میں تیل اور گیس کے کاروبار سے منسلک برطانوی ادارے شیل پیٹرولیم کمپنی (ایس پی سی او) نے ملک میں اپنے 77 فیصد حصص کی فروخت کر کے یہاں سے نکل جانے کا عندیہ دیا ہے۔

شیل پیٹرولیم کمپنی کی جانب سے کاروبار بن کرنے کا اعلان اس کے مقامی ذیلی ادارے شیل پاکستان لمیٹڈ نے کیا۔

شیل پاکستان لمیٹڈ کے سیکریٹری نے پاکستان سٹاک ایکسچینج لمیٹڈ کے جنرل منیجر کو ایک خط میں بتایا کہ بدھ کو ان کے ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں شیل پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ (ایس پی سی او) (شیل پاکستان میں) اپنے شیئرز فروخت کرنے کی خواہش کی اطلاع دی ہے۔

ماہرین کی الجھن

پاکستان میں تیل اور گیس کے کاروبار سے منسلک برطانوی ادارے شیل پیٹرولیم کمپنی کے یہاں سے کاروبار لپیٹنے کی اطلاع سے اکثر ماہرین الجھن کا شکار ہوئے۔

پاکستان کے سابق وفاقی سیکریٹری پیٹرولیم ڈاکٹر گلفراز خان کا کہنا تھا: ’مجھے نہیں سمجھ آ رہی کہ شیل، پاکستان جیسی منافع بخش تیل اور گیس کی منڈی کو چھوڑ کر کن وجوہات کی بنا پر جا رہا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں شیل صرف تیل صاف کرنے اور مصنوعات کی نقل و حمل کے کاروبار سے منسلک ہے، جو سراسر منافع کا سودا ہے۔

’شیل بہت پہلے پاکستان میں تیل کی تلاش سے منسلک رہا ہے، لیکن وہ ماضی کی باتیں ہیں۔ اب وہ صرف ڈاؤن سٹریم (صفائی اور نقل و حمل کے)  آپریشنز میں ہی ہاتھ ڈالتے ہیں۔‘

ڈاکٹر گلفراز کے خیال میں شیل برطانیہ کے پاکستان سے جانے کی ایک وجہ کوئی دفتری یا سرکاری مسائل یا دقتیں ہو سکتی ہیں۔ ’لیکن شیل اتنی بڑی کمپنی ہے کہ وہاں ان چھوٹے موٹے مسائل کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

’اور یہی حقیقت میری کنفیوژن کی وجہ بن رہی ہے کہ اتنا بڑا ادارہ اور محض چھوٹی باتوں کی وجہ سے ایسا کاروبار چھوڑ کر چلا جائے۔‘

تھینک ٹینک اسلام آباد پالیسی انسٹیٹیوٹ (آئی پی آئی) سے منسلک تحقیق کار الیاس فاضل نے بھی برطانوی ادارے ایس پی سی او کے پاکستان سے نکلنے کی اطلاع سن کر حیرت اور الجھن کا اظہار کیا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’یعنی پیرنٹ کمپنی اپنے حصص کا بڑا حصہ بیچ کر یہاں سے نکل رہی ہے لیکن ذیلی ادارہ شیل پاکستان یہاں اپنے آپریشنز جاری رکھے گا۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی۔‘

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی کافی بین الاقوامی اداروں نے پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کرنے کا اعلان کیا لیکن ان میں سے اکثر اب بھی یہاں کام کر رہے ہیں۔

ان کے خیال میں تمام تر معاشی مسائل کے باوجود پاکستان میں پیٹرولیم کی صنعت پر بہت کم اثر ہوا ہے۔

’میرے خیال میں ہمیں ابھی برطانوی شیل کمپنی کے اس فیصلے کو کچھ دیر انتظار کر کے دیکھنا ہو گا۔ مستقبل میں کیا ہوتا ہے کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’ملٹی نیشنلز پاکستان سے باہر نکل رہی ہیں، اب شیل نے پاکستان سے اپنی شیئر ہولڈنگ فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وجوہات میں انتہائی غیر یقینی سیاسی ماحول، ریگولیٹڈ مارکیٹس، کیپیٹل کنٹرول، درآمدی پابندیاں، پالیسی میں عدم مطابقت اور زیادہ ٹیکس شامل ہیں۔ شیل ڈائیوسٹمنٹ جیسی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں، جنہوں نے 50 سال سے زیادہ عرصے سے پاکستان کو پالا ہے، بہت برا اشارہ دیں گے اور شہباز شریف کی فاشسٹ حکومت پر مکمل عدم اعتماد کریں گے۔‘

روسی تیل

بعض حلقوں کے خیال میں برطانوی کمپنی شیل کے پاکستان سے نکلنے کی بڑی وجہ روسی تیل کی ملک میں آمد ہو سکتی ہے۔

تاہم ڈاکٹر گلفراز روسی تیل کی پاکستان آمد اور شیل کے ملک سے نکلنے کے درمیان کوئی رشتہ نہیں دیکھتے۔

ان کے خیال تھا: ’اگر شیل کو روسی تیل پر اعتراض تھا بھی تو اس کے اظہار کے کئی دوسرے آسان طریقے تھے۔ کاروبار بند کرنے کی کیا بات ہوئی۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان روس سے محض ایک لاکھ بیرل تیل لے رہا ہے، جبکہ یہ منڈی بہت بڑی ہے اور اتنی بڑی مارکیٹ میں شیل کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑنے لگا۔

سابق وفاقی سیکریٹری پیٹرولیم نے پاکستان میں شیل کے آپریشنز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی پیٹرولیم کمپنی پاکستان سٹیٹ آئل کے بعد شیل ملک میں اس صنعت کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔

’90 کی دہائی میں ہم نے شیل کی مثال پر چلتے ہوئے ملک بھر میں پی ایس او کے پیٹرول پمپس کو نئی جدت دی تھی۔ شیل ٹرینڈ سیٹر ہے۔‘

شیل کی مالی حالت

گزشتہ ماہ شیل پاکستان لمیٹڈ نے 2023 کی پہلی سہ ماہی کے لیے اپنی مالی کارکردگی کا اعلان کیا تھا، جو ملک میں جاری معاشی بحران سے شدید متاثر ہوا۔

شیل پاکستان نے گذشتہ مہینے 2023 کی پہلی سہ ماہی کے لیے اپنی مالی کارکردگی کا اعلان کیا تھا، جو ملک میں جاری معاشی بحران سے شدید متاثر ہوئی ہے۔

اس نقصان کی وجوہات میں روپے کی قدر میں کمی، بڑھتی مہنگائی اور میکرو اکنامکس کی غیر یقینی صورت حال بتائی گئی ہیں۔

برطانوی شیل پیٹرولیم کمپنی کو گذشتہ سال پاکستان میں شرح مبادلہ، روپے کی قدر میں کمی اور واجب الادا وصولیوں کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

پیٹرولیم کمپنیوں سے کاروبار کے سلسلے میں رابطہ رکھنے والے امین ملک کا کہنا تھا کہ تیل اور گیس کی برطانوی کمپنی گذشتہ دس سال سے گھمبھیر مالی مشکلات کا شکار تھی۔

بدھ کو ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا: ’شیل کمپنی کا اپنے شیئرز فروخت کرنے کا تعلق نا تو موجودہ گورنمنٹ سے ہے اور نا ہی معاشی حالات کی وجہ سے ہے۔ شیل کمپنی گزشتہ 10 سال سے اپنی مارکیٹ پوزیشن کو بہتر نہیں کر پائی جس کی وجہ سے یہ متواتر تنزلی کا شکار ہے۔‘

امین ملک کا کہنا تھا: ’شیل کے پاکستان سے جانے کی وجہ سیاسی حالات ہوتے تو کالٹیکس جس نے کچھ سال پہلے اپنے پٹرول مارکیٹ کے سارے شیئرز ٹوٹل پارکو کو فروخت کر دیے تھے وہ اب دوبارہ مارکیٹ میں آ رہی ہے اور بھاری سرمایہ کاری کا منصوبہ بنا چکی ہیں لاہور میں ان کا پہلا پیڑول پمپ لانچ بھی ہو چکا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شیل پاکستان برطانوی کمپنی شیل پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ کا ایک ذیلی ادارہ ہے، جو آگے دنیا کی بڑی توانائی اور پیٹرو کیمیکل کمپنی رائل ڈچ شیل پی ایل سی کا ذیلی ادارہ ہے۔

شیل پاکستان پیٹرولیم مصنوعات اور کمپریسڈ قدرتی گیس کی مارکیٹنگ کرتا ہے اور مختلف قسم کے تیلوں کی آمیزش اور مارکیٹنگ بھی کرتا ہے۔

تاہم شیل پاکستان نے کہا کہ اس کے پاکستان میں جاری آپریشنز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

شیل پیٹرولیم کمپنی توانائی اور پیٹرو کیمیکل کمپنیوں کا ایک عالمی گروپ ہیں جن کے 70 سے زیادہ ممالک میں 90 ہزار سے زیادہ ملازمین ہیں۔

شیل یو کے کی ویب سائٹ کے مطابق کمپنی جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتی ہے اور پائیدار توانائی کے مستقبل کی تعمیر میں مدد کے لیے ایک اختراعی طریقہ اختیار کرتی ہے۔

شیل، جو روزانہ تقریباً 30 لاکھ بیرل تیل روزانہ پیدا کرتا ہے، نے سال 2022 کے دوران 66 ملین ٹن مائع قدرتی گیس (ایل این جی) فروخت کی، جبکہ کمپنی کی کل کمائی تقریباً ملین امریکی ڈالر کمائی  اور 42 ہزار ملین امریکی ڈالر سے زیادہ کمائی تھی۔

اسی سال شیل پیٹرولیم کمپنی نے تحقیق اور ترقی کے میدان میں ایک ہزار ملین امریکی ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت