قیمتیں بڑھنے سے قبل ہر بار پیٹرول کہاں غائب ہو جاتا ہے؟

پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے چند گھنٹے قبل اکثر پیٹرول پمپ فروخت بند کر دیتے ہیں، جو ماہرین کے خیال میں غیر قانونی طور پر منافع کمانے کا طریقہ ہے۔

یہ فائل تصویر اس صورت حال کا احاطہ کر رہی ہے، جو پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے چند گھنٹے قبل پیٹرول پمپوں پر دیکھنے کو ملتی ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے تقریباً ہر بڑے شہر میں ہفتے کی صبح سے پیٹرول پمپوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آنا شروع ہو گئی تھیں، جس کی وجہ اگلے روز (اتوار کو) سمجھ آئی، جب وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا۔

کئی ایک سمجھدار لوگوں نے تو پیٹرول پمپوں پر گاڑیوں کا ہجوم دیکھ کر ہی پیشگوئی کر دی تھی کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہونے جا رہا ہے۔

روایتی اور سوشل میڈیا میں بھی چند روز سے پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں متوقع اضافے کے اشارے مل رہے تھے، جبکہ بعض حکومتی اہلکار اور ادارے بھی اس افتاد کو ناگزیر قرار دیتے رہے ہیں۔

پیشگوئیوں کی وجہ ہمیشہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے لیے حکومتی منصوبہ بندی کے دوران پمپوں پر سے سپریم آئل اور ڈیزل وغیرہ غائب ہو جانے کی روایت کا تسلسل تھا۔

ہر مرتبہ تیل کی قیمتیں بڑھنے سے قبل ہی ملک کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبے میں اکثر پیٹرول پمپوں پر ’بند ہے‘ کے بورڈ آویزاں ہو جاتے ہیں، جبکہ بعض پمپ راشننگ کا نظام متعارف کرواتے ہوئے فی کار یا موٹر کے لیے فروخت مخصوص مقدار (عام طور ہر پانچ سے دس لیٹر) تک محدود کر دیتے ہیں۔

وفاقی حکومت نے اتوار کی صبح پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرتے ہوئے پیٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں 35، 35 روپے فی لیٹر کے حساب سے اضافے کا اعلان کیا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اعلان کے لیے مختصر ویڈیو پیغام میں سوشل میڈیا پر قیمتوں میں 50 روپے فی لیٹر اضافے کی قیاس آرائیوں کو اس ’مصنوعی قلت‘ کی وجہ قرار دیا۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ سوشل میڈیا پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 50 روپے اضافے کی قیاس آرائیوں کے باعث مارکیٹ میں مصنوعی قلت کی اطلاعات تھیں۔

پیٹرول جاتا کہاں ہے؟

اسی ہفتے کے شروع میں پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلقہ ادارہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے ملک میں پیٹرول کی قلت کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مصنوعی قلت‘ پیدا کر کے ذریعے بعض پیٹرول پمپ مالکان زیادہ منافع کمانے اور اپنے صارفین کا استحصال کر رہے ہیں۔

پیٹرولیم مصنوعات تقسیم کرنے والی ملک کی سب سے بڑی اور سرکاری کمپنی پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) بھی گذشتہ کئی روز سے تیل کی وافر مقدار میں دستیابی اور موجودگی کی یقین دہانیاں کروا رہے تھے۔

متعلقہ اداروں کی یقین دہانیوں کے باوجود قیمتوں میں اضافے سے چند گھنٹے پہلے پیٹرولیم مصنوعات کا غائب ہو جانا، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ’مصنوعی قلت‘ کے مفروضے کو سچ ثابت کرتا ہے۔

وفاقی حکومت میں کئی سال تک سیکریٹری پیٹرولیم کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹر گلفراز کا کہنا تھا: ’پیٹرول کہی غائب نہیں ہو جاتا، بلکہ پمپ مالکان صرف زیادہ منافع کمانے کی غرض سے فروخت روک یا کم کر دیتے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی ملک میں پیٹرول اور دوسری پیٹرولیم مصنوعات وافر مقدار میں موجود ہیں، اس لیے کمی کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔

اسلام آباد میں ایک پیٹرول پمپ پر کام کرنے والے ملازم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جمعے کی ’رات سٹاف کو فروخت روکنے کا کہہ دیا گیا تھا‘۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پیٹرول پمپ ملازم کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھ گئے کہ قیمتیں اوپر نیچے ہونے جا رہی ہیں۔ ویسے بھی میڈیا پر اس کا واویلا جاری تھا کئی دن سے۔‘

تاہم رحیم یار خان میں ایک پیٹرول پمپ مالک کا کہنا تھا کہ فروخت میں کمی یا روکنے کا تعلق پیٹرول ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سے ہے، جو قیمتوں میں ممکنہ اضافے سے چند روز قبل ایسے اقدامات اٹھاتی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ پیٹرولیم ڈسٹری بیوشن کمپنیاں پیٹرول پمپس کو مصنوعات کی ترسیل روک دیتی ہیں۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پیٹرول پمپ مالک نے کہا: ’ایسی صورت حال میں ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ نرخ بڑھنے والے ہیں، اور ہم اپنے پاس موجود سٹاک کو محفوظ کر لیتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ چند ایک بڑی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں کچھ بڑے پیٹرول پمپس کو پیٹرول اور دوسرئ مصنوعات کی فراہمی کا سلسلہ برقرار رکھتی ہیں۔ ’اور صرف چھوٹے پمپوں پر عتاب گرتا ہے، اور ممکنہ نقصان سے بچنے اور زیادہ منافع کمانے کی غرض سے پمپ مالکان ایسا کرتے ہیں۔‘

غیر متوازن اضافہ

پاکستان کے سوشل میڈیا پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو غیر متوازن بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

اسلام آباد میں کام کرنے والے ایک صحافی زبیر علی خان نے ٹویٹ میں کہا کہ ’عالمی منڈی میں تیل کی قیمت ایک سو دس ڈالر فی بیرل تھی تو پاکستان میں پیٹرول ایک سو پچاس روپے فی لیٹر مل رہا تھا۔‘

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’اب جب بین الاقوامی منڈی میں تیل کا نرخ 86 ڈالر فی بیرل ہے تو پاکستان میں پیٹرول کی قیمت 250 روپے فی لیٹر کیوں ہے؟‘

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا اپنے ویڈیو پیغام میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گذشتہ ہفتے کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی، اور عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 11 فیصد اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

ملکی میڈیا کے علاوہ سرحد پار انڈیا میں بھی ذرائع ابلاغ کے ادارے پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر گفتگو کر رہے ہیں۔

انڈیا میں اکثر صحافی، تجزیہ کار اور ماہرین پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کو ملکی معیشت کی زبوں حالی کی نشانی قرار دے رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت