برمنگھم میں بقا کی لڑائی لڑتے بلتی ریستوراں

1970 کی دہائی میں پاکستانی تارکین وطن نے برطانیہ میں بلتی ریستوراں قائم کیے جو بے حد مقبول ہوئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ریستوراں ختم ہو رہے ہیں۔

برمنگھم کے مشہور بلتی ریستورانوں کو اپنی بقا کی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے۔

1970 کی دہائی کے وسط میں پاکستانی تارکین وطن نے قریبی شراب خانوں کے بھوکے گاہکوں کو کھانا کھلانے کے لیے مصالحے، دھنیا، پیاز، ٹماٹر اور ہری مرچوں کا سالن بنایا تھا۔

1990  کی دہائی میں شہر کے جنوب مشرق میں ’بلتی مثلث‘ کے اندر 30 سے زیادہ ریستوراں پائے جاتے تھے، لیکن آج صرف مٹھی بھر بچے ہیں۔

اینڈی منرو اور ان کے ساتھی اسے برمنگھم کے ثقافتی اور کھانے پکانے کے ورثے کے اہم حصے کے طور دیکھتے ہیں اور اسے محفوظ بنانے کے مشن پر ہیں۔

72 سالہ منرو نے ’بلتی ٹرائی اینگل‘ کے ’مرکز‘ لیڈی پول روڈ پر سٹیک ہاؤسز، برگر جوائنٹس اور کیک کی دکانوں کی نشاندہی کی، جنہوں نے سابقہ بلتی ہاؤسز کی جگہ لے لی ہے۔

یہ ناصرف کھانے کے ذائقے بلکہ سپارک بروک کے اندرون شہر کے علاقے میں بھی تبدیلی کی علامت ہے، جہاں پرانے آئرش شراب خانے بند ہو گئے ہیں اور آبادی نمایاں طور پر متنوع ہوئی ہے۔

منرو نے بتایا، ’زیادہ تر جگہوں پر جائیداد اپنی نہیں تھی ۔۔۔  انہوں نے اسے مالکان سے کرائے پر لیا تھا۔ اور جب 1990 کی دہائی میں بلتی کافی مقبول ہوئے  تو میرے خیال میں مالکان نے سوچا کہ ’یہ ایک سنہری موقع ہے اور میں کرایہ بڑھا سکتا ہوں۔ وہ فیملی بزنسز تھے اور وہ اس کی ادائیگی نہیں کر سکتے تھے۔‘

ریستوراں اس لیے بھی بند کر دیے گئے کیونکہ برمنگھم آنے والے ابتدائی پاکستانی تارکین وطن کے بچے اس کاروبار میں جانا نہیں چاہتے تھے۔

تاہم زاف حسین نے اس روایت کو توڑتے ہوئے لیڈی پول روڈ پر ’شبابز‘ کا کنٹرول سنبھالا، جس کو ان سے پہلے ان کے والد اور بھائی چلاتے تھے۔

اپنے چھوٹے سے باورچی خانے میں، وہ شوق سے بتاتے اور دکھاتے ہیں کہ بلتی کیسے پکائی جاتی ہے، اور ماہرانہ طریقے سے تیل، کوٹے ہوئے مکس مصالحے، دھنیا اور دیگر مصالحے دستوں والی سٹیل کی ایک چھوٹی ڈش میں ڈالتے ہیں۔

وہ مرغی کا گوشت اور تھوڑی سی یخنی ڈالتے ہیں، اور باورچی خانہ ایک گرم مصالحے دار خوشبو سے بھر جاتا ہے۔ صرف چند منٹ بعد یہ ڈش کھانے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔

حسین نے سب سے پہلے نوجوانی میں بلتی پکانا سیکھا تھا اور وہ اس روایت کو زندہ رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

سٹراٹ فورڈ روڈ پر واقع ایک اور بچ جانے والے ریستوراں شاہی نان کباب ہاؤس کے مالک کے بیٹے شہباز خان نے اس بات سے اتفاق کیا۔

انہوں نے کہا، ’ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس روایت کو جب تک ممکن ہو برقرار رکھیں۔‘

انہوں نے مزید کہا، ’اس کا مقصد کوئی ایسی چیز پیش کرنا ہے جس کا ذائقہ 60 سال پہلے جیسا ہو۔ یہ ایک چیلنج ہے۔‘

 برسوں میں ان ریستورانوں کے گاہک بھی بدل گئے۔ اب زیادہ خاندان ہیں، جو کھانے کے لیے وقت نکالنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

38  سالہ ڈیوڈ پریرا بچپن سے اس علاقے میں بلتی کھا رہے ہیں اور انہیں ’دنیا کی بہترین ڈش‘ قرار دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے شبابز میں ایک میز پر بیٹھے ہوئے کہا، ’یہ جان کر تھوڑا دکھ ہوتا ہے کہ یہ بند ہو رہے ہیں، لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ بلتی ہاؤسز اب بھی مقبول ہیں۔

لفظ ’بلتی‘ کی اساس میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن ممکن ہے یہ اردو لفظ ’بالٹی‘ سے نکلا ہو۔ جس کو دھاتی برتن کے استعمال کیا جاتا ہے جس میں اسے پکایا اور گاہک کو پیش کیا جاتا ہے۔

کاربن سٹیل سے بنے کنڈوں والے یہ چھوٹے دھاتی پیالے (کڑاہی) مقامی طور پر بنائے جاتے ہیں اور ان کا پیندا چوڑا رکھا جاتا ہے تاکہ گیس والے چولہے پر ان کا توازن برقرار رہے۔

بلتی چیمپیئنز نے اس ڈش کو یورپی ورثے کا درجہ حاصل دلوانے کی کوشش کی لیکن بریگزٹ اور برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کی وجہ سے ان کے منصوبوں کو نقصان پہنچا۔

منرو، جو ’گوئنگ فار اے بلتی: دی سٹوری آف برمنگھم سگنیچر ڈش‘ کے مصنف ہیں اور بلتی پسند کرنے والوں کے لیے ایک ویب سائٹ چلاتے ہیں، اب مدد کے لیے مقامی حکام سے رجوع کر رہے ہیں۔‘

دریں اثنا، حسین کے پاس بڑے منصوبے ہیں اور ان کے ریستوراں کو بڑا کرنے کا کام پہلے ہی جاری ہے۔

انہوں نے کہا، ’میں اس ورثے کو جاری رکھنا چاہتا ہوں۔ میں اس وراثت کو اپنے خاندان اور برمنگھم کے لیے آگے لے جانا چاہتا ہوں۔

’اگرچہ اس علاقے میں ریستوراں زوال پذیر ہیں، لیکن ہم پھر بھی اچھے جا رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ