مصنوعی ذہانت اور اسرائیل کا نسلی امتیاز

بڑے پیمانے پر جاسوسی یا امتیازی نگرانی کے لیے چہرہ شناس ٹیکنالوجی کے استعمال پر اسرائیل میں پابندی لگانی چاہیے کیوں کہ یہ تکنیک حقوق انسانی کے بین الاقوامی قانون سے ہم آہنگ نہیں۔

اس فائل فوٹو میں ایک اسرائیلی ٹیکنیشن مقبوضہ بیت المقدس میں نگرانی کرنے والے کیمرے نصب کر رہا ہے (اے ایف پی)

فوجی چوکیاں، کیمرے اور سڑکوں پر ناکے مقبوضہ غرب اردن میں بسنے والے فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کی ناقابل تردید حقیقت ہیں اور اب ان کی جاسوسی کے لیے اسرائیل نئے ڈیجیٹل ٹولز متعارف کرانے کی کوششیں کر رہا ہے۔

ان میں چہرہ شناسی کے لیے استعمال ہونے والا ’بلیو ولف‘ نامی ڈیجیٹل ٹول انتہائی خطرناک قرار دیا جا رہا ہے، جسے قابض اسرائیل کی ’فیس بک‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

مقبوضہ فلسطین کے علاقے غرب اردن میں واقع تاریخی شہر الخلیل (ہیبرون) میں فلسطینیوں کی سب سے کڑی نگرانی کی جاتی ہے اور وہیں پورے فلسطین میں سب سے زیادہ جاسوسی کے آلات استعمال ہوتے ہیں۔

الخلیل شہر کی تاریخی اہمیت اسے دوسرے فلسطینی شہروں سے ممتاز بناتی ہے کہ یہاں برگزیدہ پیغمبر حضرت ابراہیم خلیل اللہ آسودہ خاک ہیں۔

غرب اردن کے اسی شہر کی مسجد ابراہیمی میں فروری 1994 کو نماز باجماعت ادا کرتے 29 مسلمان گولیوں سے بھون دیے گئے تھے۔

باروخ گولڈ سٹائن نامی شخص نے نماز فجر کے وقت مسجد میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کر کے نمازیوں کو موت کی نیند سلا دیا، جبکہ 150 اس واقعے میں زخمی ہوئے۔

انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق الخلیل میں استعمال ہونے والی چہرہ شناسی کی خفیہ ٹیکنالوجی کو اب پورے فلسطین میں رائج کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ جنین پر حالیہ چڑھائی بھی انہی کوششوں کا حصہ ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشل نے ’آٹومیٹیڈ اپارتھائیڈ‘ کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ’چہرہ شناسی تکنیک کے بے مہا استعمال سے معاشرے میں عدم مساوات کی خلیج مزید گہری ہو گی اور سوسائٹی کے مارجنلائزڈ طبقے نئی جکڑ بندیوں کا شکار ہوں گے۔‘

واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ’بلیو ولف‘ ٹول ڈیجیٹل طریقے سے انسانی شناخت جانچنے کی ایک ایسی جدید تکنیک ہے جس میں سمارٹ کیمروں کی مدد سے انسانوں کو ٹریک کیا جاتا ہے۔

اسرائیلی فوجی اس ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے فلسطینیوں کی تصاویر اتار کر انہیں سمارٹ فونز کی مدد سے ایک بڑے ڈیٹا بیس میں محفوظ کرتے ہیں۔ مراعات کے لالچ میں اسرائیلی فوجی اس سسٹم کے ذریعے فلسطینیوں کی زیادہ سے زیادہ پروفائل تصاویر اتارتے ہیں۔

اسرائیلی فوج کے بقول الخلیل میں یہودی آبادکاروں اور فلسطینیوں کے مکانات قریب قریب ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان تصادم اور کشیدگی کا خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے۔

اس لیے ان علاقوں میں نئے کیمروں کی تنصیب دوسرے فلسطینی شہروں کی نسبت زیادہ ضروری ہے تاکہ لمحہ بہ لمحہ صورت حال مانیٹر کی جا سکے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں، وقت ضائع کیے بغیر، یہودی آباد کاروں کی مدد کے لیے اسرائیلی فوج کی کمک بھیجی جا سکے۔

فلسطینی الزام لگاتے ہیں کہ اسرائیلی حکام سکیورٹی کیمرے ایسے زاویوں پر لگاتے ہیں جس سے فلسطینیوں کی چادر اور چار دیواری کا تحفظ بری طرح مجروح ہوتا ہے، بلکہ بعض صورتوں میں کیمروں کی رسائی ان کی خواب گاہوں تک ہو جاتی ہے۔ وسیع ٹکنالوجی کے اس زوایے کی تشہیر کر کے اسرائیل دنیا کو ’ہر فلسطینی پر نظر‘ کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا ۔۔ عام دیدار یار ہو گا

سکوت تھا پردہ دار جس کا ۔۔ وہ راز اب آشکار ہو گا

مصنوعی ذہانت تکنیک کے استعمال کا جواز پیش کرتے ہوئے اسرائیل کہتا ہے کہ ’چہرہ شناسی کی اہلیت رکھنے والے کیمرے مناسب انٹیلی جنس اور سکیورٹی سروے کے بعد لگائے جاتے ہیں اور ممکنہ حد تک کوشش کی جاتی ہے کہ ان سے فلسطینیوں کی چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال نہ ہو۔‘

تاہم اسرائیل اس ضمن میں آپریشنل اور سکیورٹی لوازمات کو آشکار کرنا مناسب نہیں سمجھتا اور اپنی من پسند وضاحت کو کافی وشافی ماننے پر زور دیتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ہیومن رائٹس ایڈوائزر، مصنوعی ذہانت ٹکنالوجی کے ایکسپرٹ اور ’آٹومیٹیڈ اپارتھائیڈ‘ نامی رپورٹ کے مرکزی مصنف میٹ محمودی سمجھتے ہیں کہ ’چہرہ شناسی ٹیکنالوجی کے بڑے پیمانے پر جاسوسی یا امتیازی نگرانی کے لیے استعمال پر اسرائیل میں پابندی عائد کی جانی چاہیے کیونکہ یہ اقدام انٹرنیشل ہیومن رائٹس قانون سے قطعاً ہم آہنگ نہیں۔‘

اس ٹیکنالوجی کے ذریعے کسی بھی فرد کے پیشگی علم اور اطلاع کے بغیر بہت بڑے ڈیٹا بیس کو کھنگال کر مطلوبہ معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ چہرہ شناسی کے لیے بعض اوقات تصاویر سوشل میڈیا سے اٹھائی جاتی ہیں، جو نجی معلومات کے حق کی صریح خلاف ورزی سمجھی جاتی ہے۔

غرب اردن میں مزاحمت کاروں کے بڑھتے ہوئے رسوخ کے سامنے اسرائیل کی جنگی مشین کل بھی بے بس دکھائی دیتی تھی اور جنین کا محاذ کھول کر اب تک کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل کو سوائے خجالت اور بدنامی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔

مزاحمت کاروں کے عوامی حلقوں میں نفوذ کے بعد فلسطینی صدر کے ساتھ اسرائیل کا سکیورٹی کوارڈی نیشن تو اپنی موت آپ مر چکا، لہذا محمود عباس کے جنین پر حملے کے بعد اسرائیل کے ساتھ اپنے سکیورٹی تال میل موقوف کرنے سے متعلق بیان دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش ہے۔

اسرائیل نے اب فلسطینیوں کو قابو میں لانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپنی ان کوششوں کی راہ میں مزاحم تمام رکاوٹوں کو ختم کرنے کی خاطر صہیونی جنگی مشین نے جنین پر ایک مہینے میں دوسری مرتبہ لشکر کشی کر رکھی ہے۔

یادش بخیر! زمینی حملوں میں منہ کی کھانے کے بعد اسرائیل نے دو ہفتے قبل بھی جنین کے خلاف کارروائی کے لیے اپنے اپاچی ہیلی کاپٹر بلا بھیجے تھے، لیکن جنین میں حیفا کے الکرمل ریجن اور جبل الکرمل کے باکمال مہاجر باسیوں کی جرات اور حوصلے کے سامنے اسرائیل کی بری اور فضائی برتری دھری کی دھری رہ گئی۔

اسرائیل کئی برسوں سے طے کردہ خونی اہداف اور منصوبے کے ذریعے جنین مہاجر کیمپ کا شیرازہ بکھیرنے کی کوششیں کر رہا ہے، تاہم اسے ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور ہر کارروائی کے بعد جنین کیمپ اور اس کے باسی پہلے سے زیادہ عزم وثبات کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

آج بھی 16 ہزار نفوس اور نصف مربع کلومیٹر مساحت پر پھیلے ہوئے جنین مہاجر کیمپ پر دو دنوں سے جاری اپنی بری اور فضائی جارحیت کو اسرائیل نتیجہ خیز نہیں بنا سکا، جو اس تاریخی شہر کے مزاحمت کا گڑھ ہونے کی واضح دلیل ہے۔

دلیری اور مزاحمت کا استعارہ بنا شہر جنین گذشتہ تین برسوں کے دوران 131 شہدا کا نذرانہ پیش کر چکا ہے، ان میں نصف شہدا کا تعلق جنین پناہ گزین کیمپ سے تھا۔

نکل کے صحرا سے جس نے ۔۔ روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا

سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے ۔۔ وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

جنین گورنری نے 2021 میں 16، سنہ 2022 میں 56 اور رواں برس 2023 تادم تحریر 60 شہیدوں کے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے، جبکہ جنین سے متعلق محکمہ شماریات کے اعداد وشمار کے مطابق مسجد اقصیٰ کی صہیونی تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں یہ شہر 1967 سے اب تک 200 شہید پیش کر چکا ہے۔

جنین کا فلسطینی مہاجر کیمپ 1953 میں مقامی میونسپلٹی کی حدود میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کے اکثر باسیوں کا تعلق حیفا کے الکرمل ریجن اور جبل الکرمل سے ہے۔ 1948 کو بپا ہونے والی قیامت کبریٰ [النکبہ] کے وقت الکرمل کے باسی اسی جنین میں آ کر آباد ہوئے۔

تاسیس کے وقت کیمپ کا رقبہ 92 ایکٹر اور آبادی 5019 نفوس پر مشتمل تھی بعد میں کیمپ کا حجم 118 ایکڑ تک پھیل گیا اور 2007 میں اس کی آبادی 10371 نفوس تک جا پہنچی۔

شماریات ڈویژن کے مطابق رواں برس کے پہلے چھ مہینوں میں کیمپ کی آبادی 11674 ہو چکی ہے۔

مزاحمت کا جذبہ جنین کی تاریخ کا جزو لاینفک رہا ہے۔ 1935 میں اس شہر کو عظیم فلسطینی مجاہد عزالدین القسام کے پروانوں اور ان کے عسکری کامریڈیز کی میزبانی کا شرف حاصل رہا۔

برطانوی تسلط کے دوران القسام نے ستمبر 1918 میں مزاحمت کے اس شاندار پراجیکٹ کی قیادت کی جس نے استعمار کے چھکے چھڑا دیے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سنہ 2000 کی الاقصیٰ انتفاضہ کے بعد جنین ہمیشہ شہ سرخیوں کا موضوع رہا ہے۔ یہ کئی ابطال جلیل مزاحمت کاروں کا مسکن ٹہرا، اسرائیل کی ’دفاعی دیوار‘ نامی خونی کارروائی کے بعد جنین حقیقت میں مزاحمت کی علامت بن کر سامنے آیا۔

اسرائیل نے’دفاعی دیوار‘ کوڈ نام سے 11 اپریل 2002 کو کیے جانے والے آپریشن میں جنین کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا۔ یہ معرکہ دس روز جاری رہا جس میں 58 اہالیاں جنین نے جام شہادت نوش کیا۔

اس معرکے میں ’23 اسرائیلی فوجی جنہم واصل‘ ہوئے جن میں 14 صرف ایک دن میں مارے گئے۔ اسرائیل نے اس لڑائی میں جنین کے 150 گھروں کو مکمل طور پر مسمار کر دیا اور ان پر بلڈوزر چلا کر انہیں مٹی میں ملا دیا۔

اسرائیل میں اس وقت دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے جن انتہائی انتہا پسند قوم پرستوں کی حکومت ہے، وہ غرب اردن کے سکیورٹی اور انتظامی ڈھانچے کو مقبوضہ مشرقی بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ پر اپنے ناجائز تسلط کو دوام بخشنے کی خاطر بطور رول ماڈل اپنانا چاہتے ہیں۔

جس طرح غرب اردن میں صہیونی کارپردازوں  نے مسجد ابراہیمی کی زمانی اور مکانی تقسیم کامیابی سے مکمل کی ہے، اب وہ مسجد اقصیٰ کی بھی ایسی ہی زمانی اور مکانی تقسیم نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

اسی لیے مسجد اقصیٰ کے داخلی راستوں پر چہرہ شناسی کی اہلیت رکھنے والے کیمرے اور آہنی گیٹ لگانے کی کوشش کی گئی، لیکن القدس کے باسیوں نے اپنے منظم اور پرامن احتجاج سے وہ منصوبہ ناکام بنا دیا۔

مسلمانوں کے تسیرے مقدس حرم مسجد اقصیٰ پر ہاتھ صاف کرنے میں ناکامی سے پیدا ہونے والی خجالت کو مٹانے کے لیے تل ابیب اب منصوعی ذہانت کو اپنے مذموم مقاصد کو ایک مرتبہ پھر غرب اردن میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ الخلیل کے بعد جنین اور نابلس کو اس مقصد کے لیے خصوصی ہدف بنایا گیا ہے۔

قوی امید ہے کہ رواں ہفتے برسلز میں یورپی یونین کمیشن اور ایمنسٹی انٹرنیشل کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں اسرائیل کی ’آٹومیٹیڈ اپارتھائیڈ‘ پالیسی سے متعلق انسانی حقوق کی عالمی تنظیم اپنا مبنی برحق موقف دنیا کے سامنے پیش کرے گی تاکہ ٹیکنالوجی کو اپنے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی سمجھنے والے اسرائیل کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آشکار ہو سکے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی رائے پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ