’آئینے کی مانند‘ چمکتا سیارہ دریافت

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یورپ کی خلائی دوربین چیوپس کے نئے مشاہدات کے مطابق زمین سے 260 نوری سال سے زیادہ دور یہ عجیب و غریب دنیا اپنے ستارے کی 80 فیصد روشنی کو منعکس کرتی ہے۔

یورپی خلائی ایجنسی  کی 10 جولائی 2023 کو جاری کی گئی اس تصویر میں ’آئینے کی مانند چمکتے سیارے‘ کو اپنے میزبان ستارے کے گرد چکر لگاتے دکھایا گیا ہے (اے ایف پی)

ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ گرم دنیا جہاں دھاتی بادلوں سے ٹائٹینیم کے قطرے نکلتے ہیں، ہمارے نظام شمسی سے باہر اب تک کا سب سے زیادہ روشنی منعکس کرنے والا سیارہ ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یورپ کی خلائی دوربین چیوپس کے نئے مشاہدات کے مطابق زمین سے 260 نوری سال سے زیادہ دور یہ عجیب و غریب دنیا اپنے ستارے کی 80 فیصد روشنی کو منعکس کرتی ہے۔

یہ زہرہ کی طرح پہلا بیرونی سیارہ ہے جو چاند کے بعد ہماری رات کے آسمان میں سب سے زیادہ روشن چیز ہے۔

سال2020  میں پہلی بار دریافت ہونے والا نیپچون سائز کا سیارہ ایل ٹی ٹی 9779 بی صرف 19 گھنٹوں میں اپنے ستارے کے گرد چکر مکمل کرتا ہے۔

چونکہ یہ بہت قریب ہے، لہذا اس کا ستارے کی جانب والے رخ کا درجہ حرارت دو ہزار ڈگری سیلسیئس ہے، جس کو بادل بننے کے لیے بہت زیادہ گرم تصور کیا جاتا ہے۔ پھر بھی ایسا لگتا ہے کہ ایل ٹی ٹی 9779 بی میں بادل ہیں۔

فرانس کی کوٹ ڈی آزور آبزرویٹری کے محقق اور جرنل ایسٹرونومی اینڈ ایسٹروفزکس میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق کے شریک مصنف ویوین پارمینٹیئر کا کہنا ہے کہ 'یہ واقعی ایک پہیلی تھی۔‘

انہوں نے ایک بیان میں کہا، ’اس کے بعد محققین کو احساس ہوا کہ ہمیں اس بادل کی تشکیل کے بارے میں اسی طرح سوچنا چاہیے جس طرح گرم شاور کے بعد باتھ روم میں بننے والے کنڈینسیشن کے بارے میں سوچتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ جس طرح گرم پانی سے باتھ روم میں بھاپ بھر جاتی ہے، اسی طرح جلتی ہوئی دھات اور سلیکیٹ کا بہاؤ ، جس سے شیشہ بنایا جاتا ہے، دھاتی بادل بننے تک ایل ٹی ٹی 9779 بی کی فضا کو بھر دیتے ہیں۔ یہ سیارہ زمین سے تقریبا پانچ گنا بڑا ہے۔

اس سے قبل دریافت ہونے والے واحد سیارے جو 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اپنے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہیں وہ یا تو زمین سے 10 گنا بڑے گیس کے بنے دیوقامت ہیں یا اس کے سائز کے نصف پتھریلے سیارے ہیں۔
لیکن ایل ٹی ٹی 9779 بی ’نیپچون ڈیزرٹ‘ نامی خطے میں ہے، جہاں اس کے سائز کے سیارے نہیں پائے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ویوین پارمینٹیئر نے کہا، ’یہ ایک ایسا سیارہ ہے جس کا وجود نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں توقع ہے کہ اس طرح کے سیاروں کا ماحول ان کے ستارے کی وجہ سے ختم ہو جائے گا اور صرف چٹان باقی رہ جائے گی۔‘

یورپی خلائی ایجنسی کے چیوپس پروجیکٹ کے سائنسدان میکسیمیلین گوئنتھر کے مطابق سیارے کے دھاتی بادل ’آئینے کی طرح کام کرتے ہیں‘ جو روشنی کی منعکس کرتے اور اس فضا کو ختم ہونے سے روکتے ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ’یہ ایک ڈھال کی ماند ہے، جیسا کہ سٹار ٹریک کی پرانی فلموں میں ہوتا ہے جن میں وہ اپنے جہازوں کے ارد گرد ڈھال ہوتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ تحقیق ’ایک بڑا سنگ میل‘ ہے کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نیپچون کے سائز کا سیارہ نیپچون کے صحرا میں کیسے رہ سکتا ہے۔

یورپی خلائی ایجنسی کی چیوپس خلائی دوربین 2019 میں ہمارے نظام شمسی سے باہر دریافت ہونے والے سیاروں کی تحقیقات کے مشن پر زمین کے مدار میں لانچ کی گئی تھی۔

اس نے ایل ٹی ٹی 9779 بی کی اپنے ستارے کے پیچھے غائب ہونے سے پہلے اور بعد کی روشنی کا موازنہ کرکے اس کی منعکس کرنے کی صلاحیت کا پتہ چلایا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس