ایک نئی رپورٹ کے مطابق قرضوں میں ڈوبے ہوئے ملک، جنہیں اب ماحولیاتی بحران کا بھی بہت زیادہ سامنا ہے، کووڈ 19 کی وبا کے بعد سے قرضے دینے والے ملکوں کے گروپ جی 20 کو 50 ارب ڈالر کی بہت بڑی ادائیگی کر چکے ہیں۔
بین الاقوامی ادارہ برائے ماحولیات اور ترقی (آئی آئی ای ڈی) کے تجزیے میں دنیا کے غریب ترین اور ماحولیاتی خطرے سے سب سے دوچار ممالک کو درپیش مالی بوجھ کے مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان ملکوں کو دنیا کے 20 امیر ترین ملکوں کو قرضہ واپس کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
عالمی بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ جی 20 کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے گورنروں کی گاندھی نگر، انڈیا میں ہونے والے آئندہ اجلاس سے پہلے سامنے آئی ہے۔
تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ کم ترین ترقی یافتہ 58 ممالک (ایل ڈی سیز) اور سمال آئی لینڈ ڈویلپنگ سٹیٹس (ایس آئی ڈی ایس) کی جانب سے کی گئی ادائیگیاں 2022 میں 21 ارب ڈالر (16 ارب پاونڈ) تک پہنچ گئیں تھیں، جبکہ 2021 میں یہ ادائیگیاں 14 ارب ڈالر (11 ارب پاؤنڈ) اور 2020 میں 13 ارب ڈالر (10.3 ارب پاؤنڈ) تھیں۔
قرضے کی بڑھتی ہوئی واپسی کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے غریب ترین ممالک جنہیں قدرتی آفات کے سب سے بڑے خطرات کا بھی سامنا ہے، مالی بوجھ کی گردش میں پھنس چکے ہیں۔
اس سال عالمی سطح پر ریکارڈ توڑ درجہ حرارت، سمندری طوفانوں، سیلابوں اور خشک سالی جیسی بڑھتی ہوئی شدید قدرتی آفات کے پیش نظر اب ماحول کے مقابلے، اس حوالے سے ضروری تبدیلیوں اور موسمیاتی اثرات کو کم کرنے کے منصوبوں پر زیادہ رقم خرچ کرنے کے تقاضے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن بڑھتے ہوئے قرضوں کی وجہ سے یہ ممالک انسانی جانوں کے تحفظ کی بجائے قرضوں کی ادائیگی کی مد میں زیادہ رقم خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ دو سال میں ان بڑی ادائیگیوں کے باوجود جی 20 ممالک نے اب بھی کم ترین ترقی یافتہ ملکوں اور سمال آئی لینڈ ڈویلپنگ سٹیٹس (ایس آئی ڈی ایس) سے 2021 میں مجموعی طور پر 155 ارب ڈالر (120 ارب پاؤنڈ) وصول کرنے تھے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مختلف عوامل کی وجہ سے ان ممالک پر معاشی دباؤ مزید بڑھا ہے۔ ان عوامل میں یوکرین پر روس کا حملہ، کووِڈ 19 کی وبا اور عالمی سطح پر قیمتوں اور شرح سود میں اضافے کے سبب پیدا ہونے والی عالمی اقتصادی سست روی شامل ہیں۔ قرضوں کے اس بڑھتے ہوئے بوجھ نے بہت سے ملکوں کی حالت نازک کر دی ہے اور بعض نادہندگی کے دھانے پر پہنچ چکے ہیں۔
اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جی 20 ممالک نے عالمی بینک اور یورپی ترقیاتی فنڈ جیسے کثیر جہتی اداروں کے توسط سے کافی قرضے وصول کرنے ہیں۔
دو طرفہ معاہدوں کے علاوہ، وہ ادارے، جن میں جی 20 ممالک بطور فریق شامل ہیں، نے 2021 میں ایل ڈی سیز اور ایس آئی ڈی ایس سے 131 ارب ڈالر کا اضافی قرضہ وصول کرنا تھا۔ نامکمل اعداد و شمار کی وجہ سے قرضوں کا حجم اور بھی زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ مزید برآں اس تجزیے میں بینکوں سمیت جی 20 ممالک کے نجی قرض دہندگان کے قرضے کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔
آئی آئی ای ڈی جی 20 ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ ایک بہتر مالیاتی نظام قائم کرے جو موسمیاتی بحران کے خطرے سے سب زیادہ دوچار ملکوں کی ضروریات کو پورا کرے۔ آئی آئی ای ڈی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر ٹام مچل نے قرضوں کے بوجھ کو کم ترین ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے ساتھ ’ناانصافی ‘ قرار دیا۔ ان ملکوں کا موحولیاتی بحران پیدا کرنے میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔
مچل کے بقول: ’موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے سب سے زیادہ دوچار کچھ ممالک پر قرضوں کے بھاری بوجھ کا مطلب ہے کہ وہ کہیں زیادہ دولت مند قوموں کو ہمیشہ سود واپس کرتے رہیں گے جن کا موسمیاتی بحران میں کردار سب سے زیادہ ہے۔‘ انہوں نے کہا: ’یہ ناانصافی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’وہ پیسہ جو لوگوں کے گھروں کو سیلاب سے بچانے یا خشک سالی کے دوران پانی تک لوگوں کی رسائی کو یقینی بنانے سمیت سکولوں اور ہسپتالوں کو چلانے کے لیے خرچ کیا جا سکتا ہے، بجائے اس کے کہ وہ بڑے بینکوں اور آلودگی پھیلانے والے ملکوں کے خزانے کو بھر رہا ہے۔
’ جی 20 ممالک کو ہمارے اس شکستہ بین الاقوامی نظام کی بحالی کے لیے گذشتہ ماہ پیرس کے مالیاتی سربراہی اجلاس میں سامنے آنے والی سیاسی خیر سگالی کو بنیاد بنانا چاہیے جو اب بھی نوآبادیاتی اور 1940 کی دہائی والی سوچ کی میراث پر مبنی ہے۔‘
آئی آئی ای ڈی کی رپورٹ میں کئی ایسے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جنہیں جی 20 اپنا سکتا ہے۔ ان تجاویز میں قرضوں کی تنسیخ یا انہیں موسم اور قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے دیے گئے قرضوں میں تبدیلی شامل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ماحول کے حوالے سے موافقت پیدا کرنے کے لیے اقدامات کے بدلے میں یہ قرض معاف کر دیے جائیں یا ان کی تنظیم نو کی جائے۔
دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ملکوں سے موسمیاتی بحران کے بگڑتے ہوئے اثرات کی ذمہ داری قبول کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ جی 20 ممالک میں دنیا کی سب سے بڑی معیشتیں شامل ہیں جو یا تو صنعتی انقلاب کے بعد سے سب سے زیادہ آلودگی پھیلا رہی ہیں یا حالیہ دہائیوں میں ایک ایسا کرنے والے ملک بن گئی ہیں جس کی مثال انڈیا اور چین ہیں۔
دنیا کے غریب ترین ممالک نے موسمیاتی بحران میں سب سے کم حصہ ڈالا ہے پھر بھی انہیں اس کے نتائج سے سب سے زیادہ خطرات کا سامنا ہے جن میں سمندری طوفان اور خشک سالی شامل ہیں۔ اس کے برعکس جی 20 میں وہ ممالک شامل ہیں جو تاریخی اعتبار سے اور اس وقت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی بلند ترین سطح کے ذمہ دار ہیں۔ ان میں سے بہت ملکوں نے فتوحات اور سامراجی نظام قائم کر کے معاشی طاقت حاصل کی۔
© The Independent