اندرون لاہور میں گلیاں تنگ اور لمبی ہیں جہاں بیشتر مکان بوسیدہ اور کچھ کی حالت ایسی نہیں ہے کہ کوئی انسان وہاں بسیرا کر سکے۔
یہاں پرانی اور بڑی بڑی حویلیاں بھی ہیں اور کچھ ایسے مکان بھی ہیں جنہیں وہاں کے مکینوں نے نئے سرے سے تعمیر کیا ہے۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ یہ گلیاں چھوڑ کر نئے علاقوں میں جا بسے ہیں جبکہ ان پرانے مکانات کو اب نئے لوگ آباد رکھے ہوئے ہیں۔
زیادہ تر مکانات کا رقبہ ایک مرلے سے دو یا تین مرلے کے بیچ ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ جڑ کر اونچے اونچے تنگ و تاریک گھر ان گلیوں میں صدیوں سے کھڑے ہیں۔
اندروں لاہور میں ہی بھاٹی گیٹ اور ٹیکسالی گیٹ کے درمیان محلہ سیماں بھی ایک ایسا مکان ہے جس کا رقبہ چوڑائی میں ڈیڑھ پونے دو مرلے ہے لیکن لمبائی میں وہ کافی اونچا تھا۔
اس مکان کو بھی نئے سرے سے بنایا گیا تھا۔ تین منزلوں کے اس مکان میں ہر منزل پر ایک کمرہ تھا۔
اس مکان میں ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ عادل حسین جعفری اپنی ماں، چھوٹے بھائی زوہیب حسن، ایک بہن اور ان کے چار بچوں اور ایک بھابھی (جن کے شوہر دبئی میں کام کرتے ہیں) اور ان کے دو بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔
بدھ کو جب اس مکان کو دیکھا تو اس پر تالا پڑا تھا، بند دروازے کی درز سے پانی مسلسل باہر گر رہا تھا جبکہ گھر کے باہر جلے ہوئے کچھ کپڑے، جوتے اور چادریں پڑی تھیں جبکہ فضا میں دھویں کی شدید بو تھی۔
دروازے پر پانچ سوراخ تھے، اہل محلہ کے مطابق وہ گولیوں کے نشان تھے جبکہ اس گھر کے رہائشی ایڈووکیٹ عادل کے ایک دوست نے بتایا کہ وہ نشان ایک ڈیڑھ برس پرانے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موقع پر موجود پولیس اہلکاروں کو اس حوالے سے کچھ علم نہیں تھا۔
ریسکیو 1122 کے ترجمان محمد فاروق نے انڈپینڈنٹ اردوکو بتایا کہ ایمرجنسی سروس کو رات دو بج کر 32 منٹ پر اس مکان میں آگ لگنے کی کال موصول ہوئی۔
اس آگ میں بچ جانے والے زوہیب حسن نے بتایا کہ جس وقت مکان میں آگ لگی اس وقت گھر کے 11 افراد ایک کمرے میں اے سی لگا کر سو رہے تھے۔
زوہیب نے بتایا: ’پہلے کچھ جلنے کی بدبو آئی لیکن ہم دونوں بھائیوں نے دیکھا لیکن کچھ نہیں ملا۔ اس کے کچھ دیر کے بعد ہمیں گھر سے چھوٹے چھوٹے دھماکوں کی آوازیں آئیں جب ہم نے یہ دیکھنے کے لیے کمرے کا دروازہ کھولا تو آگ کا بگولا کمرے میں آیا۔‘
زوہیب کہتے ہیں اسی لمحے دونوں بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ دوسرا بھائی باقی افراد کو بچائے گا جبکہ وہ نیچے جا کر دروازہ کھولیں۔
’میں جب نیچے آیا تو اس دروازے کو اندر سے تالا لگا ہوا تھا۔ اہل محلہ ہمارا شور سن کر جمع ہو چکے تھے انہوں نے مجھے ہتھوڑی دی کہ میں تالا توڑ کر دروازہ کھولوں۔ میں نے دروازہ کھولا لیکن دوسری منزل پر آگ زیادہ ہو چکی تھی جس کی وجہ سے بھائی اور باقی سب نیچے کی طرف نہیں آسکے اور وہ اوپر کی تیسری منزل کی طرف چلے گئے۔
ریسکیو 1122 کے ترجمان کا بھی یہ ہی کہنا تھا کہ تیسری منزل سے وہ چھت پر نکل سکتے تھے لیکن وہاں ممٹی پر بھی تالا لگا تھا اور اس کے دروازے کے آگے بہت سارا سامان پڑا تھا۔
ریسکیو کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان 10 افراد کی موت گھٹن سے ہوئی کیونکہ گھر سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا اور گھر کے اندر دھواں بھر چکا تھا جس سے یہ گھٹن کا شکار ہو گئے۔
اس حادثے میں جان سے جانے والوں میں چھ بچے، ایک مرد اور تین خواتین شامل ہیں۔
اندرون لاہور کے اس علاقے کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں جگہ جگہ بجلی کی تاریں لٹکی ملیں گی یا دیواروں کے ساتھ ساتھ بندھی ہوئی ملیں گی۔
ریسکیو 1122 کے ایک اہلکار جو اس ریسکیو آپریشن میں موجود تھے نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا: ’محلہ سمیاں کے اس گھر تک پہنچنے میں کچھ وقت لگا کیونکہ ایک تو گلیاں تنگ ہیں دوسرا یہاں لوگ بہت زیادہ باہر تھے اور تیسرا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی تاریں تھیں جو بہت نیچی تھی، وہاں سے ریسکیو کی گاڑیاں اور فائر ٹرکوں کو گزارنا ہمارے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں تھا۔‘
اہل محلہ کا بھی یہی خیال ہے کہ ان گلیوں میں حکومت کو کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں بہت سے لوگ آباد ہیں، جیسا حادثہ اب ہوا اس سے بڑا کوئی حادثہ ان گلیوں میں ہوا تو یہاں سے لوگوں کا باہر نکلنا ناممکن ہو گا۔