معروف انڈین صحافی و لکھاری خوشونت سنگھ نے 1977 میں اردو کو مرتی ہوئی زبان قرار دیا تھا۔ انڈیا میں یہ تاثر عام ہے کہ اردو تیزی سے تنزلی کی طرف گامزن ہے۔
کچھ ماہ پہلے مہاراشٹر کی ایک سیاسی جماعت شیو سینا میں دو دھڑے ہونے کے بعد ایک کیس سپریم کورٹ آف انڈیا میں گیا۔
کیس کی سماعت کے دوران 2:43 منٹ کا ایک کلپ جو کہ اردو سے متعلق تھا سوشل میڈیا پر کافی وائرل اور موضوع بحث رہا۔ دوران بحث مہاراشٹر گورنر کے وکیل تشار مہتا نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے بشیر بدر کا یہ شعر پڑھا:
میں چپ رہا تو اور غلط فہمیاں بڑھیں
وہ بھی سنا ہے اس نے جو میں نے کہا نہیں
اس پر ذرا دیر کے لیے عدالت میں قہقہہ بلند ہوا- چیف جسٹس ڈی وائی چندراچود جو عمومی طور پر انگریزی میں بات کرتے ہیں نے دہرا کر اس میں دلچسپی ظاہر کی اور اردو میں پوچھا کہ اس شعر کا اس قانونی بحث میں کیا مطلب ہے اور یہ کس کا شعر ہے۔
تشار مہتا نے جواب دیا کہ یہ اردو زبان کا شعر ہے (انہوں نے اسے غلطی سے وسیم بریلوی کا شعر کہہ دیا تھا)۔
اس پر چیف جسٹس نے ادھو ٹھاکرے کے وکیل و رکن راجیہ سبھا کپل سبل کو بھی گفتگو میں شامل کیا۔
کپل سبل نے کہا کہ اردو ایک خوبصورت زبان ہے لیکن اب یہ مر رہی ہے اور یہ حقیقت ہے ہم اپنا کلچر کھو رہے ہیں۔
کیا اردو واقع ہی مر رہی ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں:
حالیہ اعداد و شمار تو بتاتے ہیں کہ وکی پیڈیا پر بر صغیر میں بولے جانے والی معروف زبانوں میں سب سے زیادہ آرٹیکلز اردو میں دستیاب ہیں۔
آج کے دور میں کاروبار زندگی تیزی سے ڈیجٹلائز ہو رہا ہے۔ سادہ اور سلیس الفاظ میں ٹیکنالوجی کی مدد سے گاہک تک اپنے مواد کو پہنچا نے کو ڈیجٹلایئزیشن کہا جاتا ہے۔
دیگر کاروبار زندگی کی طرح صحافتی نیز پڑھائی لکھائی کے امور بھی اسی سمت پر چل رہا ہے۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ جو اخبار آپ خریدتے ہیں وہ ان کی متعلقہ ویب سائٹز پر آن لائن بھی دستیاب ہوتا ہے۔ کچھ کے لیے سبسکرپشن درکار ہوتی ہے جبکہ بعض تک مفت رسائی ہوتی ہے۔
اسی طرح جو خبریں یا پروگرامز ٹی وی پر دیکھے جاتے ہیں وہ ان کے یوٹیوب چینلوں اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی مل جاتے ہیں۔
ابلاغ میں عوام کون سی زبان زیادہ پسند کرتے ہیں یا کس زبان میں پڑھائی لکھائی کا کام زیادہ ہو رہا ہے یا کون سی زبان زیادہ ترقی کر رہی ہے اس کو ماپنے کے تین طریقہ کار ہیں: پہلا، اخبارات اور کتابیں ہیں کہ کس زبان میں کتنے اخبارات چھپتے اور بکتے ہیں۔
دوسرا، ٹی وی پروگرامز، عوام کونسی زبان میں زیادہ پروگرام دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔
تیسرا، ڈیجیٹل ذریعہ، اس کا مطلب کہ کس زبان میں آئن لائن کتنا مواد موجود ہے۔ جس زبان میں جتنے زیادہ آرٹیکلز یا مواد دستیاب ہو گا اس کا مطلب اس میں بہتر کام ہو رہا ہے۔
چونکہ آج کل لوگوں کی عمومی ترجیح ڈیجیٹل سرچنگ ہے تو ہم اس پر ہی بات کریں گے۔
معروف انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ میں ویگنیش رادھا کرشنن نے وکی پیڈیا پر دستیاب آرٹیکلز پر اعدادوشمار پیش کیے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی مشہور 320 زبانوں میں ویکی پیڈیا پر دستیاب آرٹیکلز میں سب سے زیادہ آرٹیکلز انگریزی میں دستیاب ہیں۔
اس میں کل آرٹیکلز کی تعداد 66 لاکھ 71 ہزار 236 ہے۔ حیران کن طور پر انگریزی کے بعد دوسرا نمبر فلپائن کی ایک علاقائی زبان سیبانو کا ہے جس میں کل 61 لاکھ 23 ہزار 197 آرٹیکلز دستیاب ہیں۔
دنیا کی دوسری مشہور زبانوں میں جرمن (28.6لاکھ)، سویڈش میں (25.1) لاکھ، ڈچ (21.2 لاکھ) اور فرانسیسی (25.3لاکھ) زبانوں کا نمبر آتا ہے جن میں وکی پیڈیا پر آرٹیکلز کی اچھی تعداد ہے۔ چینی زبان میں دستیاب آرٹیکلز کی تعداد 13.6 لاکھ ہے۔
انڈیا میں آئینی تسلیم شدہ زبانوں میں اردو سر فہرست ہے جس کو وکی پیڈیا پر آرٹیکلز کی دستیابی میں سبقت حاصل ہے۔
اردو میں دستیاب آرٹیکلز کی تعداد 1.91 لاکھ ہے۔ اس کے بعد بالترتيب ہندی (1.57 لاکھ)، تامل (1.54 لاکھ) اور بنگلہ (1.4 لاکھ) کے نمبر آتے ہیں۔
آئین ہند کا آٹھواں شیڈول تسلیم شدہ زبانوں سے متعلق ہے۔ اس شیڈول میں 24 زبانیں ہیں جو آئینی حیثیت رکھتی ہیں۔
ان میں دو زبانیں پنجابی اور سندھی پاکستان کے دو صوبوں کی بھی باالترتیب پنجاب اور سندھ کی سرکاری زبانیں ہیں۔
بنگالی کو بھی انڈیا میں آئینی حیثیت حاصل ہے۔ انڈیا کی ریاست مغربی بنگال کی ریاستی زبان کے علاوہ یہ بنگلہ دیش کی سرکاری زبان ہے۔
سندھی میں وکی پیڈیا پر آرٹیکلز کی تعداد 15،000 ہے۔ آئین ہند میں شامل ریاستی زبانوں میں پنجابی، ملیالم، تیلگو اور مراٹھی میں وکی پیڈیا پر آرٹیکلز کی تعداد پچاس ہزار سے ایک لاکھ کے بیچ ہے ۔
اردو بھی انڈین آئین کے آٹھویں شیڈول میں شامل زبانوں میں سے ایک ہے۔ یوں تو اردو کا خمیر انڈیا ی ہے لیکن 1947 میں تقسیم برصغیر کی وجہ سے اردو بھی تنازعے کا شکار ہو گئی۔
انگریزوں کے وقت اردو جو بلا مذہب انڈیا میں بولی جاتی تھی اور انڈیا کی مخلوط زبان یا جگت بھاشا (Lingua Franca) سمجھی جاتی تھی انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دی گئی ۔
اردو ایک ہند آریائی زبان ہے اور اس کے ارتقا کے متعلق سب سے ٹھوس نظریہ مسعود حسین خان کا مانا جاتا ہے۔ اس تھیوری کے مطابق اردو دہلی و نواح دہلی کی بولیوں سے مل کر وجود میں آئی۔ دہلی کے نواح کی بولیاں جن سے خمیر سے اردو تیار ہوئی برج بھاشا، کھڑی بولی، ہریانوی، قنوجی اور میواتی ہیں۔
یوں تو اردو صدیوں پہلے وجود میں آ چکی تھی اور انڈیا کی لنگوا فرانکا کا درجہ حاصل کر چکی تھی۔ ابتدا میں اس کی ترویج میں دکن کی سلطنتوں کا بڑا کردار ہے۔ انیسویں صدی اردو کی ترویج کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
1800 میں کلکتہ میں بننے والے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی سربراہی میں ہندوستانی زبانوں کا الگ شعبہ قائم کیا گیا جس میں اردو کو خصوص توجہ دی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کالج کا مقصد انڈیا میں ملازمت کرنے والے انگریز افسروں کو ہندوستانی کلچر نیز زبان سے آگاہ کرنا تھا۔
افسران کو اردو سکھانے کے لیے جو اس وقت ہندوستانی کہلاتی تھی، کالج میں میں بہت سی کتابوں کے اردو تراجم کیے گئے جو اردو کی ترقی میں اہم سمجھی جاتی ہیں۔
1837 تک فارسی ہندوستان کی سرکاری زبان تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دہلی سلاطین اور مغل حکمران اردو کے فروغ کو لے کر کتنے سنجیدہ تھے۔
بلاشبہ اردو کے فروغ میں تمام مذاہب کے لوگوں کا کردار رہا ہے۔ اس کو مخصوص مذہب سے جوڑنا نا انصافی ہو گی۔
ایک ماہر لسانیات، سنیتی کمار چٹرجی نے کہا تھا کہ ’اگر مسلمان ہندوستان میں نہ آتے تب بھی جدید ہند آریائی زبانوں کی پیدائش ہو جاتی لیکن ان کے ادبی آغاز و ارتقا میں تاخیر ضرور ہو جاتی۔‘
انیسویں صدی میں اردو بر صغیر میں فارسی، عربی اور سنسکرت کے خلاف ایک سیکولر لسانی انقلاب تھا اس کی تدوین و ترویج انگریز سرکار کی سر براہی میں ہوئی۔
انتہا پسندوں کی طرف سے بعض دفعہ بالی وڈ کو بھی ’اردو وڈ‘ کہہ کے پکارا جاتا ہے۔
آندھرا پردیش، اتر پردیش، بہار، جھار کھنڈ، مغربی بنگال اور تلنگانہ ریاستوں میں اردو کو اضافی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے جبکہ ریاست جموں و کشمیر میں یہ سرکاری زبان ہے۔
انڈیا سے باہر پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کی سرکاری زبان اردو ہے اور پورے ملک میں لنگوا فرانکا کا کام کرتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں یہی زبان برصغیر کے تمام باشندے ایک دوسرے کے ساتھ بولتے ہیں، حتیٰ کہ وہاں کاروبار کرنے والے بہت سے عربوں کو بھی اردو آتی ہے۔
نیپال میں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ جنوبی افریقہ کے آئین میں بھی اس کو تحفظ دیا گیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے علاوہ انڈین اور پاکستانی جو دوسرے ممالک میں جاتے ہیں کی وجہ سے اردو دنیا بھر میں بولی جاتی ہے۔
اردو کی سب سے بڑی ویب سائٹ ریختہ بھی انڈیا میں ہے۔ وکی پیڈیا پر آرٹیکلز کے حوالے سے بر صغیر میں بولی جانے والی زبانوں میں اس کا سر فہرست ہونے کا مطلب اس دعوے کی نفی ہے کہ اردو مر رہی ہے۔