مجوزہ ترامیم: ’پیمرا کو ٹی وی چینلز کا ایڈیٹر بنایا جا رہا ہے‘

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی جانب سے جمعرات کی شام کو پیش کردہ بل میں ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کا سیکشن شامل کیا گیا ہے۔

جیو نیوز کے کراچی کنٹرول روم میں 11 اپریل، 2018 کو لی گئی اس تصویر میں ایک ملازم کام پر مامور ہے (روئٹرز)

حکومت نے ملک میں الیکٹرانک میڈیا کی نگرانی کے ادارے پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی (پیمرا) کے قوانین میں ترامیم کا نیا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس پر صحافتی برادری نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کی جانب سے جمعرات کی شام کو پیش کردہ بل میں ’ڈس انفارمیشن‘ اور ’مس انفارمیشن‘ کا سیکشن شامل کیا گیا ہے۔

انہوں نے بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس میں نئی ترامیم متعارف کرانے کا مقصد خبروں کے مواد کی ساکھ بڑھانا، گمراہ کن اور غلط اطلاعات کو ختم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بل کو بامقصد بنانے کے لیے فیک نیوز کی تعریف کو بھی اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صحافتی تنظیموں کو بھی بل میں نمائندگی دی گئی ہے۔

بل میں ڈس انفارمیشن کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ ایسی خبر ’ڈس انفارمیشن‘ کہلائے گی جو کسی ذاتی، سیاسی یا مالی مفاد کی خاطر یا کسی کو ہراساں کرنے کے لیے دی گئی ہو۔ مجوزہ شق کے مطابق ’غلط معلومات سے مراد مصدقہ طور پر غلط، گمراہ کن، ہیرا پھیری، تخلیق شدہ یا من گھڑت معلومات ہیں جو کسی بھی شخص کی ساکھ کو نقصان پہنچانے، سیاسی، ذاتی یا مالی مفادات یا فائدے کے لیے یا ہراساں کرنے کے ارادے سے دوسرے شخص کے نقطہ نظر کو حاصل کرنے یا اسے مناسب کوریج اور جگہ نہ دینے کی کوشش کیے بغیر پھیلائی یا شیئر کی جاتی ہے۔‘

اس کے مطابق متعلقہ چینل متاثرہ شخص کا موقف بھی اسی نمایاں انداز میں نشر کرے گا یا کوریج دے گا جس طریقے  سے اس کے خلاف ’ڈس انفارمیشن‘ پر مبنی خبر دی گئی ہو گی۔

مجوزہ بل کے مطابق ’مس انفارمیشن‘ کی تشریح: ’مِس انفارمیشن‘ سے مراد وہ مواد ہے جو جانچ کے بعد جھوٹ ثابت ہو یا نہ چاہتے ہوئے غلطی سے نشر ہو گیا ہو۔

میڈیا کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں فریڈم نیٹ ورک اور ڈی جی میپ کی 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق غلط معلومات نے حالیہ برسوں میں پاکستان میں سیاسی اور سماجی ترقی کے لیے سنگین خطرات پیدا کیے ہیں۔

’ملک میں جھوٹے پیغامات کا پھیلاؤ، جو بعض اوقات مربوط مہمات اور اثر و رسوخ کی کارروائیوں کے ذریعے کیا جاتا ہے اور سب سے نمایاں طور پر آن لائن دیکھا جاتا ہے۔

’تحقیقی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں غلط معلومات کی مختلف اقسام اور شکلوں نے حالیہ ماضی میں صحت عامہ، سیاسی استحکام، انسانی حقوق، صحافت اور امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے، خاص طور پر کوویڈ 19 وبائی امراض اور 2022 میں سیاسی ہلچل اور  اقتدار کی منتقلی کے دوران اس میں اضافہ ہوا ہے۔‘

بل میں ڈس انفارمیشن کی شق کے متعلق صحافی و اینکرپرسن منصور علی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ فیک نیوز پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس کا خاتمہ ضرور ہونا چاہیے۔‘

’لیکن اس کو ختم کرنے کے لیے ایک جامع نظام ہونا چاہیے تاکہ صحافی کو غیرضروری طور ہدف نہ بنایا جائے۔‘

منصور علی خان کا کہنا تھا کہ صحافتی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے بالکل کچھ اصول ہوتے ہیں جیسا کہ دونوں اطراف کا موقف لینا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اکثر جس کی خبر کی جا رہی ہو وہ یا رابطے میں نہیں آتا یا اس پر جواب ہی نہیں دینا چاہتا۔ اب یہاں پر کون طے کرے گا کہ کوشش کی گئی کہ نہیں۔‘

منصور علی خان نے اپنا موقف دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ فیک نیوز کا تعین کون کرے گا؟ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں حکومتیں اکثر زبان بندی کے لیے ایسے قوانین کا استعمال کرتی ہیں۔ عالمی سطح پر صحافی اور ان کی تنظیمیں صحافتی اداروں کے اندر ’سیلف ریگولیشن‘ پر زور دیتی ہیں اور ان کا موقف رہا ہے کہ حکومت کو ان اقدامات سے دور رہنا چاہیے۔

منصور علی خان نے کہا کہ فیک نیوز کا تعین حکومتی ذرائع کے پاس نہیں آزاد صحافیوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔

پیش کردہ بل کے مطابق آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی کے زمرے میں آنے والی خلاف ورزی اس بل کے تحت ’سنگین خلاف ورزی‘ تصور ہو گی۔

اس بل کے حوالے سے صحافی و تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا تھا اس بل کی کچھ چیزیں اچھی ہیں اور بعض منفی بھی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مظہر عباس کی رائے تھی کہ خدشہ ہے کہ جیسے پیمرا کا قانون غلط استعمال ہوتا ہے ویسے ہی یہ بھی ہو سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پیمرا نے اپنے آپ کو ٹی وی چینلز کا ایڈیٹوریل بورڈ بنا دیا ہے۔ ’جو فیصلے اس میں لکھے گئے ہیں وہ بنیادی طور ایڈیٹر کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایڈیٹر کا فیصلہ ہوتا ہے کہ کون سی خبر مصدقہ ہے کون سی نہیں۔ باہر بیٹھے شخص کو میں یہ حق کیسے دے سکتا ہوں کہ فیصلہ کرے کہ کون سی خبر مصدقہ ہے کون سی نہیں۔‘

’بورڈ میں بھی زیادہ تعداد حکومتی ارکان کی ہو گی اور بظاہر لگ رہا ہے حکومت سب کچھ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہ رہی ہے۔‘

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ’مریم اورنگزیب کا بیان ہے انہوں نے اس قانون سازی پر تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا گیا مگر ایسا محسوس نہیں ہو رہا۔‘

مریم اورنگزیب کی جانب سے پیش کردہ بل میں ابتدائیہ کی شق پانچ میں ترمیم کرکے الیکڑانک میڈیا کو ملازمین کی بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کا پابند بنانے کی ذمہ داری بھی دینے کی بات کی ہے۔

ترمیم میں بروقت ادائیگی سے مراد الیکڑانک میڈیا ملازمین کو دو ماہ کے اندر کی جانے والی ادائیگیاں ہیں۔

اس کے علاوہ اس بل میں یہ شق شامل کی گئی ہے کہ معمول کے پروگرام کے دوران اشتہار کا دورانیہ پانچ منٹ سے زیادہ نہیں ہوگا اور پروگرام میں دو وقفوں کا دورانیہ 10 منٹ سے کم نہیں ہوگا۔

مریم اورنگزیب کی جانب سے پیش کر دہ پیمرا بل میں پیمرا قانون کے ابتدائیے سمیت نو شقوں میں ترامیم کی تجویز دی گئی ہے۔

بل کے ابتدائیے میں خبر کی جگہ مصدقہ خبر، تحمل وبرداشت، معاشی وتوانائی کی ترقی، بچوں سے متعلقہ مواد کے الفاظ شامل کیے گئے ہیں۔

نئے بل کے مطابق بل کے ابتدائیے میں ترمیم کرکے عوام الناس کی تفریح ، تعلیم اور معلومات کے دائرے کو وسیع کردیا گیا ہے اور الیکڑانک میڈیا مصدقہ خبروں، معاشرے میں تحمل کے فروغ کا مواد اپنی نشریات میں استعمال کرے گا۔

اس مجوزہ بل کا اطلاق بظاہر پیمرا کے تحت چلنے والے الیکٹرانک چینلز پر ہوگا اور سوشل میڈیا پر نہیں۔ البتہ مس انفارمیشن کا مسئلہ سوشل میڈیا پر بھی ہے۔ اس کے لیے حکومت نے واضح نہیں کیا کہ کیسے خاتمہ ممکن بنائے گی۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بل سے الیکٹرانک میڈیا کو تو مزید جکڑا جا رہا ہے لیکن اس کی تیاری میں ملوث افراد، گروپس، جماعتوں یا اداروں کو روکنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان