انڈیا نے ایل او سی عبور کی تو پھولوں کے ہار نہیں پہنائیں گے: پاکستان

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ کشمیر اور گلگت بلتستان کبھی انڈیا کا حصہ نہیں بن سکتے۔

پاکستان نے جمعرات کو کہا ہے کہ کشمیر اور گلگت بلتستان کبھی انڈیا کا حصہ نہیں بن سکتے۔

اسلام آباد میں ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا کا اپنے ہمسایہ ملکوں اور خاص طور پر پاکستان کے ساتھ بہت جارحانہ رویہ ہے۔

’یہ ایک حقیقت ہے کہ آزاد جموں و کشمیر کبھی بھی تاریخ میں نہ آج نہ مستقبل میں بھارت کا حصہ بن سکتے ہیں۔‘

انہوں نے انڈین وزیر دفاع کے حالیہ بیان، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ضرورت پڑنے پر ان کی فوج لائن آف کنٹرول عبور کر لے گی، پر ردعمل دیتے ہوئے کہا یہ انڈیا کی خام خیالی ہے کہ اگر وہ سرحد عبور کریں گے تو انہیں پھولوں کے ہار پہنائے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افواج اور پاکستانی قوم اپنا اور سرحدوں کا دفاع کرنا جانتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا کو غیر ذمہ دارانہ بیان دینے کے لیے کسی موقعے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ وقتاً فوقتاً ایسے بیان دیتے رہتے ہیں اور پاکستان کے نام کو اپنی ملکی سیاست میں استعمال کرتے ہیں۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بدھ کی صبح لداخ میں کارگل جنگ کے سلسلے میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا: ’انڈیا ایک امن پسند ملک ہے جو اپنی صدیوں پرانی اقدار پر یقین رکھتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کا پابند ہے، لیکن اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہم ایل او سی کو عبور کرنے میں نہیں ہچکچائیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ انڈیا اپنی عزت اور وقار کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی ’انتہا‘ تک جائے گا۔ ’اگر اس میں ایل او سی عبور کرنا بھی شامل ہوا تو ہم ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ہمیں اشتعال دلایا گیا اور ضرورت پڑی تو ہم ایل او سی کو عبور کر لیں گے۔‘

ممتاز زہرا نے پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف درانی کے حالیہ دورہ کابل کے موقعے پر میڈیا میں قیاس آرائیوں پر کہا: ’پاکستان ان عناصر کے ساتھ ڈائیلاگ نہیں کرسکتا جو پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے۔ جن کے ہاتھ ہمارے شہریوں اور دفاعی اہلکاروں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ (اس پر) پاکستان کا واضح موقف موجود ہے اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی بھی اس پر اپنا بیان دے چکی ہے۔‘

کچھ میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ آصف درانی کا دورہ افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کے سلسلے کی کڑی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا مشورہ دینے والوں کو بھی یہی مشورہ ہے-

’جن تنظیموں کے ہاتھ پاکستانی عوام اور پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کے خون سے رنگے ہوں ان سے مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں؟‘

انہوں نے مزید کہا کہ افغان وزارت خارجہ کا بیان ان کا اپنا موقف ہے وہ ہمارے موقف سے مطابقت نہیں رکھتا۔

اس سے قبل ہفتہ وار بریفنگ میں انہوں نے بتایا کہ یونان کشتی واقعے میں مرنے والے 15 پاکستانیوں کی میتیں واپس لائی گئی ہیں-

انہوں نے کہا کہ یونانی حکام کی طرف سے ڈی این اے نتائج کے مطابق مرنے والے افراد میں مزید کسی پاکستانی کی میت نہیں- 

قرآن اور پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کی مذمت : دفتر خارجہ

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دفتر خارجہ نے ڈنمارک میں پاکستانی سفارت خانے کے سامنے قرآن اور پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کی شدید مذمت کی ہے۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جمعرات کو جاری بیان میں کہا گیا: ’ڈنمارک کی حکومت سے شدید احتجاج درج کرایا گیا ہے۔ ہم ڈنمارک کے حکام سے توقع کرتے ہیں کہ وہ نفرت اور اشتعال انگیزی کی ایسی کارروائیوں کو روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ اس طرح کی ’مذموم کارروائیوں‘ کا مقصد دنیا بھر کے دو ارب مسلمانوں کی توہین کرنا اور عالمی برادریوں، ثقافتوں اور ممالک کے درمیان ’انتشار‘ پیدا کرنا ہے۔

دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’یہ کارروائیاں، کسی بھی تعریف کے تحت آزادی اظہار کی نمائندگی نہیں کرتیں اور نہ ہی آزادی اظہار رائے اور احتجاج کے روپ میں مذہبی منافرت پر مبنی اشتعال انگیز کارروائیوں کی اجازت کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔‘

بیان کے مطابق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ اسلامو فوبک تقریریں اور ’اشتعال انگیز کارروائیاں جارحانہ، غیر ذمہ دارانہ اور غلط ہیں۔‘

دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان نے ہمیشہ اظہار رائے کی آزادی کو ذمہ داریوں کے ساتھ جوڑنے پر زور دیا ہے۔ یہ حکومتوں، عالمی تنظیموں اور عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامو فوبیا اور مذہبی منافرت کے خلاف  آواز اٹھائیں اور اس کی مذمت اور فعال طور پر روک تھام کے لیے اقدام کریں۔‘

بیان کے مطابق: ’عالمی برادری کو اسلام مخالف اقدامات کے خلاف اپنی اجتماعی آواز اٹھانی چاہیے اور بین المذاہب ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان