آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترامیم پر حکومت کے اتحادی نالاں کیوں؟

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بدھ کو جب سینیٹ میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترامیم پیش کیں تو حکومتی اراکین بھی اس کی مخالفت میں نشستوں پر کھڑے ہو گئے۔ حکومت شدید مخالفت کی وجہ سے ترامیم منظور نہ کروا سکی۔

سکیورٹی اہلکار نو جون، 2023 کو قومی اسمبلی کے باہر پہرہ دے رہے ہیں (اے ایف پی/ فاروق نعیم)

پاکستان کی اتحادی حکومت نے گذشتہ دنوں کئی اہم امور سے متعلق قانون سازی کی ہیں جن پر خود حکومتی ارکان نالاں ہیں اور وہ کہتے پائے گئے کہ اس وقت ’بل بلڈوز‘ ہو رہے ہیں۔ 

بدھ کو بھی سینیٹ میں ایک اہم بل منظور کرنے کے لیے پیش کیا گیا جس پر حکومت کے اتحادیوں نے سخت تشویش ظاہر کی۔

کون سے بل منظور ہوئے؟

حالیہ دنوں میں نگران حکومت کے اختیارات میں اضافے سے متعلق بل منظور ہوا تو دوسری جانب قومی اسمبلی میں پیمرا ترمیمی بل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور 24 یونیورسٹیوں کے قیام سے متعلق بلوں کی منظوری دی گئی۔ 
سینیٹ نے کنٹونمنٹ بورڈ ترمیمی بل، آرمی ایکٹ ترمیمی بل، ڈی ایچ اے ترمیمی بل، ٹریڈ آرگنائزیشن ترمیمی بل اور توہین پارلیمنٹ بل منظور کیے۔ 
بدھ کو حکومتی اور اپوزیشن بینچوں کے سینیٹرز نے گذشتہ ہفتے کے دوران کی گئی قانون سازی کے عمل پر کڑی تنقید کی۔ 
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ وہ سینیٹ میں نہیں بلکہ ایک شہزادہ ریاست میں ہیں جہاں ’میں آنکھوں پر پٹی باندھتا ہوں، ہتھکڑیاں لگاتا ہوں اور جو کچھ وزرا کہتے ہیں یا جو کچھ کابینہ سے منظور ہونے کے بعد آتا ہے اسے طوطے کی طرح دہراتا ہوں۔‘
اس دوران رضا ربانی نے وفاقی اردو یونیورسٹی سے متعلق بل پر احتجاج کرتے ہوئے بل کی کاپی پھاڑ دی۔
جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے وفاقی اردو یونیورسٹی بل پر بات کرتے ہوئے کہا ان کی جماعت کا حکمران اتحاد کا حصہ ہونے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی رائے نہیں دے سکتے۔ 
’اگر کوئی پابندی ہے تو ہم گھر (ایوان) سے باہر جا سکتے ہیں اور وہ (دیگر حکومتی اراکین) نمائندگی کر سکتے ہیں اور اس قانون سازی کی ذمہ داری بھی لے سکتے ہیں۔‘
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ انہوں نے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سے پوچھا تھا کہ کیا انہوں نے اس بل کے لیے رضامندی دی تھی، تو انہیں پتہ چلا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت متعدد متنازع بلز کے متعلق ان سے مشورہ نہیں کیا گیا اور نہ بتایا گیا۔
کل جب وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ آفیشل سیکرٹ ایکٹ پیش کرنے کے لیے اٹھے تو حکومتی اراکین بھی بل کی مخالفت میں اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے۔ 
اراکین کے احتجاج کے دوران وزیر قانون نے بل پیش تو کر دیا لیکن بل منظور نہ کروا سکے اور شدید رد عمل کے باعث چیئرمین سینیٹ نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیا ہے؟
بل کے مطابق خفیہ اداروں سے منسلک اہلکاروں، مخبر یا ذرائع کی شناخت ظاہر کرنے والے کو مجرم تصور کیا جائے گا۔ 
شناخت ظاہر کرنے والے کو تین سال تک قید یا 10 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔ 
شناخت ظاہر کرنے والے کی معاونت کرنے، سازش کرنے یا شناخت ظاہر کرنے کی کوشش کرنے والے کو بھی یہی سزا دی جا سکے گی۔
مسودے کے مطابق سکیورٹی فورسز کی قابلیت، اسلحہ یا آلات کی ایجاد، تحقیق، ترقی، پیداوار، مینٹیننس، آپریشن یا سٹوریج سے متعلق معلومات حاصل کرنا یا کسی کو بتانا جرم تصور کیا جائے گا۔ 
پاکستان کے اندر یا باہر کسی بھی غیر ملکی ایجنٹ کے پتے پر جانے یا اس سے منسلک ہونے کو دشمن سے رابطہ سمجھا جائے گا۔ پاکستان کے اندر یا باہر کسی بھی شخص سے دشمن یا فارن ایجنٹ کا نام یا پتہ ملنے کی صورت میں بھی اسے دشمن سے رابطے میں سمجھا جائے گا۔ 
بل میں کہا گیا کہ ممنوعہ قرار دیے گئے مقام تک رسائی، اس میں داخلہ، حملہ کرنا، تباہی پھیلانا جرم تصور کیا جائے گا۔ 
ممنوعہ قرار دیے گئے مقام کا سکیچ بنانا، پلان یا ماڈل تیار کرنا جس سے دشمن کو فائدہ پہنچ سکے قابل سزا جرم تصور کیا جائے گا۔ 
کوئی بھی سرکاری کوڈ یا پاس ورڈ، الیکٹرانک ڈیوائس حاصل کرنا، ریکارڈ یا شائع کرنا یا کسی کو بتانا جرم تصور کیا جائے گا۔ 
کسی الیکٹرانک ڈیوائس کے ذریعے یا اس کے بغیر پاکستان کے اندر یا باہر سے دستاویز یا معلومات تک غیر قانونی رسائی حاصل کرنا جرم تصور کیا جائے گا۔ 
بل کے مسودے کے مطابق کوئی بھی ایسا مقام جہاں تک رسائی یا اس کا استعمال پاکستان کے مفادات یا تحفظ کے خلاف ہو کو ممنوعہ مقام قرار دیا جا سکے گا۔ 
کوئی بھی شخص جو بالواسطہ یا بلاواسطہ، ارادتا یا غیر ارادی طور پر کسی غیر ملکی قوت، ایجنٹ، غیر ریاستی عناصر، اداروں یا گروپ کے لیے کام کرے گا اسے دشمن سمجھا جائے گا۔ 
کسی بھی ممنوعہ قرار دیے گئے مقام، انفارمیشن سسٹم، نیٹ ورک یا ڈیٹا تک براہ راست، الیکٹرانک یا ورچوئل رسائی کو غیر قانونی رسائی تصور کیا جائے گا۔
بل میں اندرون یا بیرون ملک محفوظ معلومات یا اثاثوں کے حامل کسی بھی مقام، اراضی، عمارت یا جائیداد کو ممنوعہ مقام قرار دینے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ 
بل میں ملٹری استعداد و صلاحیت یا اسلحہ، گولہ بارود کی خرید و فروخت سے متعلق معاملات کو بھی ایکٹ میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ 
انٹیلی جنس ایجنسی کی تعریف میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو شامل کرنے، ممنوعہ مقامات کی تعریف میں دفاع پاکستان سے متعلق دفاتر، کیمپ آفسز اور عمارت کے کسی بھی حصے کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی۔ 
بل میں زمانہ جنگ کے ساتھ زمانہ امن کو بھی شامل کرنے، حکومت کو کسی بھی اہم بنیادی ڈھانچے کو نوٹیفکیشن کے ذریعے ممنوعہ مقام قرار دینے کا اختیار دینے، ذرائع مواصلات میں بری اور بحری راستوں کے ساتھ فضائی راستے بھی شامل کرنے، مسلح افواج کی جانب سے وار گیمز، مشقوں، تربیت تحقیق اور ترقی، افواج کی نقل و حرکت، ان کیمرا بریفنگ کے لیے عارضی طور پر استعمال کیے جانے والے مقامات کو بھی ممنوعہ مقام قرار دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
’ہم پولیس سٹیٹ بن رہے ہیں‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کو اتنی جلد بازی میں منظور نہیں ہونا چاہیے اور ایک روز کا وقت اس بل پر بحث کے لیے کافی نہیں۔ 
انہوں نے کہا اس بل کے بنیادی حقوق پر اثرات ہوں گے۔ اس بل سمیت دیگر قوانین جو حالیہ دنوں میں پارلیمان میں آنے کے بعد منظور ہوئے، ’ہم پولیس سٹیٹ بن رہے ہیں جہاں کسی کے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں۔ میں ان تمام بلز کے خلاف ہوں۔‘
رضا ربانی نے کہا ’اس وقت ہمیں محسوس نہیں ہو رہا کہ یہ قانون ہم پر استمعال نہیں ہوگا، لیکن ایسے تمام قوانین جب بھی کسی دور میں منظور ہوئے وہ جن افراد نے منظور کیے انہی پر ان کا اطلاق بھی ہوا۔‘
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا آفیشل سیکرٹ ایکٹ ڈریکونین بل ہے۔ 
انہوں نے کہا ایسا لگتا ہے جیسے یہ نو مئی کے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا، جو سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کے خلاف بھی ہے۔
منظوری کی صورت میں اس بل سے سکیورٹی اداروں اور عوام کے درمیان اعتماد میں فرق میں مزید اضافہ ہوتا جو امن و امان، ملکی سلامتی، سکیورٹی اداروں کے عزت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
انہوں نے کہا ’یہ بل آئین پاکستان کے آرٹیکل نو اور 10 اے کے خلاف ہے، جو سکیورٹی اداروں کو وسیع طر اختیار فراہم کر رہا ہے۔ اس سے پاکستان کھلی جیل اور چھاؤنی کی شکل اختیار کر جائے گا۔‘
اس بل میں ’دشمن‘ کی تعریف اتنی وسیع ہے کہ سوشل میڈیا پر آزادی بالکل ختم ہو جائے گی۔ اس بل سے میڈیا کی آزادی بھی شدید متاثر ہوگی۔ اس بل کی منظوری کے بعد جبری گمشدگیوں میں اضافے کا خدشہ بھی ہے۔
قانون سازی کے دوران سینیٹ کے اندر بعض حکومتی اراکین اپوزیشن کا ساتھ دیتے ہوئے نظر آئے جس کا اظہار پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے بھی کیا۔ 
انہوں نے ایک بیان میں یہ دعویٰ کیا کہ اس بل سمیت دیگر بلز کے خلاف سینیٹ میں مزاحمت کی جائے گی۔ ’امید ہے کہ حکومتی اتحاد کے سینیٹرز کی اکثریت ہمارا ساتھ دے گی۔‘
ان قوانین میں کیا ’ظالمانہ‘ ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے حالیہ دنوں میں ’جلد بازی میں منظور‘ کیے جانے والے بلوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان قوانین کو پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ 
ایچ آر سی پی نے قومی اسمبلی سے منظور کیے گئے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے ’بغیر وارنٹ گرفتاری یا تلاشی‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بل کے دائرہ کار کو ’ظالمانہ قانون‘ قرار دیا۔ 
ایچ آر سی پی کے مطابق ان ترامیم نے مستقبل میں اختلاف رائے کرنے والوں اور سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے کی راہ مزید ہموار کر دی۔
ایچ آر سی پی نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’مسلح افواج کی آن لائن بدنامی سمیت ہر قسم کی تضحیک کو جرم قرار’ دینا آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 کے تحت ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کے اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 17 کے تحت عوامی زندگی میں حصہ لینے کے حق کے منافی ہے۔ 
ادارے نے مزید کہا ہے کہ اس بل میں ’قومی ترقی اور قومی یا سٹریٹیجک مفادات کے فروغ‘ کے ذریعے ان شعبوں میں ’فوجی مداخلت کے لیے قانونی منظوری حاصل کرنے کی تگ و دو کی جا رہی ہے جن پر فوج کا کوئی اخلاقی یا سیاسی استحقاق نہیں۔‘
اسی طرح توہین پارلیمنٹ بل پر تنقید کرتے ہوئے ایچ آر سی پی نے کہا ’توہین کا جائزہ لینے والی مجوزہ کمیٹی کو سزا دینے کی اجازت دینا ریاست کے تین اداروں میں اختیارات کی تقسیم کے اصول کی خلاف ورزی ہے‘ کیونکہ ادارہ عدالتی اختیارات استعمال کرنے کا مجاذ نہیں۔ 
ایچ آر سی پی نے پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل اور ای سیفٹی بل کے منظور ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل ڈیٹا پرائیویسی کے بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتے اور ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے بجائے انہیں محدود کریں گے۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست