پہلی بار شمسی طوفان زمین، چاند اور مریخ سے ایک ساتھ ٹکرایا: تحقیق

ماہرین فلکیات کے مطابق اس منفرد واقعے سے اکھٹی ہونے والی معلومات سے سورج سے اٹھنے والے طوفانوں کو بہتر طور پر سمجھنے اور مستقبل میں خلابازوں کی حفاظت میں مدد ملے گی۔

پانچ نومبر، 2015 کو جاری کی گئی ناسا کی یہ تصویر ایک فنکار کی مریخ سے ٹکرانے والے شمسی طوفان اور سیارے کے اوپری ماحول سے آئنز کو ہٹاتے ہوئے دکھاتی ہے (اے ایف پی)

ماہرین فلکیات نے پہلی بار زمین، چاند اور مریخ کے ساتھ بیک وقت ٹکرانے والے شمسی طوفان کا پتہ لگایا ہے۔

یہ ایسی پیش رفت ہے جس سے سورج سے اٹھنے والے طوفانوں کو بہتر طور پر سمجھنے اور مستقبل میں خلابازوں کی حفاظت میں مدد مل سکتی ہے۔

28 اکتوبر، 2021 کو اٹھنے والا شمسی طوفان اتنے وسیع علاقے میں پھیلا ہوا تھا کہ مریخ اور زمین جو سورج کی مخالف سمت میں اور تقریباً 25 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر تھے ان کی سطح پر سورج سے نکلنے والے توانائی سے بھرپور ذرات گرے۔

جیوگرافیکل ریسرچ لیٹرز نامی جریدے میں بدھ کو شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ زمین، چاند اور مریخ کی سطح پر شمسی سرگرمی کی ایک ساتھ پیمائش کی گئی۔

محققین نے خلائی جہازوں کے ایک بین الاقوامی بیڑے کے ذریعے دریافت ہونے والی شمسی سرگرمی  کا جائزہ لیا۔

بیڑے میں خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کا خلائی جہاز کیوریوسٹی مارس روور، چین کا چانگ ای-فور مون لینڈر اور یورپی خلائی ایجنسی کا ایکسومارس ٹریس گیس آربٹر (ٹی جی او) شامل ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ شمسی سرگرمی ’سطح زمین پر‘ خلاف معمول واقعہ تھا، جس کے دوران سورج سے توانائی سے بھرپور ذرات زمین کے اس مقناطیسی بلبلے سے گزرے، جس نے زمین کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور سیارے کو اس طرح کے شمسی طوفانوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

چوں کہ چاند اور مریخ کے اپنے مقناطیسی میدان نہیں اس لیے سورج کے ذرات آسانی سے ان کی سطح تک پہنچ سکتے ہیں اور ان کی مٹی کے ساتھ مل کر ثانوی تابکاری کا سبب بن سکتے ہیں۔

سائنس دانوں کے مطابق اس طرح کے شمسی مظاہر کو سمجھنا ضروری ہے کیوں کہ چاند اور مریخ مستقبل کی انسانی تحقیق کا مرکز ہیں۔

سات سو ملی گرے، تابکاری کو جذب کرنے کی اکائی، سے زیادہ تابکاری خلابازوں کو تابکاری کی وجہ سے لاحق ہونے والی بیماری کا سبب بن سکتی ہے۔

اس کا نتیجہ خلابازوں کی ہڈیوں کا گودا ختم ہونے کی صورت میں نکلتا ہے اور سوزش اور جسم کے اندر خون بہنے جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

سائنس دانوں نے کہا کہ 10 گرے سے زیادہ تابکاری کی زد میں آنے والے خلابازوں کا دو ہفتے سے زیادہ زندہ رہنے کا امکان انتہائی کم ہے۔

اس کے مقابلے میں اکتوبر 2021 کے شمسی سرگرمی کے نتیجے میں چاند کے مدار میں تابکاری کی مقدار جیسا کہ چاند کے مدار میں گھومنے والے  ناسا کے خلائی جہاز ایل آر او (لُونر ریکونیسنس آربٹر) نے ماپا ہے، تقریباً 31 ملی گرے تھی۔

تحقیق کے شریک مصنف جِنگن گو کہتے ہیں کہ ’ماضی میں شمسی ذرات کے چاند کی سطح تک پہنچنے کے واقعات کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہر ساڑھے پانچ سال بعد اوسطاً ایک واقعے میں چاند پر تابکاری محفوظ سطح سے بڑھ سکتی ہے۔

’اگر تابکاری کے خلاف تحفظ فراہم نہ کیا گیا تو مستقبل میں چاند کی سطح پر اترنے والے انسانوں پر مشتمل مشنز کے حوالے سے ان واقعات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس تحقیق میں اس بارے میں بھی اہم معلومات سامنے آئیں کہ مریخ کا کمزور ماحول کس طرح شمسی توانائی کے اخراج کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔

ایکسومارس ٹی جی او اور میں کیوروسٹی روور کے ذریعے کی گئی پیمائش سے پتہ چلتا ہے کہ اکتوبر 2021 کے شمسی طوفان کے نتیجے میں نو ملی گرے تابکاری مریخ کے مدار تک پہنچ گئی، جو سرخ سیارے کی سطح پر پائے جانے والی 0.3 ملی گرے تابکاری سے 30 گنا زیادہ تھی۔

تازہ نتائج خلانوردوں کے لیے محفوط خلائی لباس کے بہتر ڈیزائن کے لیے علم میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

ٹی جی او پراجیکٹ سائنس دان کولن ولسن کے بقول: ’خلائی تابکاری ہماری تحقیق کے لیے پورے نظام شمسی میں حقیقی خطرہ پیدا کر سکتی ہے۔ بہت زیادہ تابکاری کا سبب بننے والے واقعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تابکاری کی روبوٹوں پر مشتمل مشن کے ذریعے پیمائش طویل مدت کے انسانی عملے پر مشتمل مشن کی تیاری کے لیے اہم ہے۔

’ایکسومارس ٹی جی او جیسے مشنز کے ڈیٹا کی بدولت ہم اس بات کی تیاری کر سکتے ہیں کہ ہم تحقیق کرنے والے اپنے انسانی عملے کی بہترین حفاظت کیسے کر سکتے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس