’یہ ہم سب کا خواب پورا ہونے جیسا ہے۔‘
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یہ الفاظ ہیں سپیس ایکس راکٹ میں خلا کا سفر کرنے والی پہلی سعودی خاتون خلا نورد ریانا برناوی کے جو اپنے ہم وطن علی القرنی کے ساتھ خلا کے سفر پر روانہ ہو چکی ہیں۔
ریانا کہتی ہیں: ہم ابھی تک اس کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ممکن ہے۔
مدار میں جانے کے بعد ریانا برناوی کا کہنا تھا ’خلا سے آپ کو ہیلو، اس کیپسول سے زمین کو دیکھنا بہت اچھا تجربہ ہے۔‘
جب کہ علی القرنی کا کہنا تھا کہ ’جب میں باہر خلا میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ ہمارے لیے ایک عظیم سفر کا آغاز ہے۔‘
ریانا برناوی اور علی القرنی 1985 میں ایک سعودی شہزادے کے ڈسکوری شٹل پر سفر کے بعد سے خلا کا سفر کرنے والے پہلے سعودی شہری ہیں۔
بریسٹ کینسر پر تحقیق کرنے والی ریانا برناوی نے ملک کی پہلی خاتون خلاباز کے طور پر سعودی عرب اور سعودی سپیس کمیشن کی نمائندگی کرنے کو اپنے لیے ایک اعزاز قرار دیا ہے۔
جب کہ علی القرنی سعودی عرب کی رائل ایئرفورس میں پائلٹ ہیں۔ دونوں خلابازوں کے اخراجات سعودی حکومت ادا کر رہی ہے۔
ریانا برناوی اور علی القرنی جب بین الاقوامی خلائی سٹیشن پہنچیں گے تو ان کا استقبال متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے خلا باز کریں گے۔
انہوں نے اپنے جوش و خروش کو بیان کرتے ہوئے اس موقع کو مشن میں شامل ہر فرد کے لیے ایک خواب کے طور پر بیان کیا۔
بین الاقوامی خلائی مرکز پر اپنے آٹھ روزہ قیام کے دوران یہ تمام خلا باز 20 تحقیقی منصوبوں پر کام کریں گے جن میں سعودی سائنس دانوں کے تیار کردہ 14 منصوبے بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان منصوبوں میں ہیومن فزیالوجی، سیل بائیولوجی اور ٹیکنالوجی کی ترقی جیسے مختلف شعبے شامل ہیں۔
سعودی خلا بازوں کے علاوہ امریکی خاتون خلاباز پیگی وٹسن اور پائلٹ جان شوفنر بھی اس مشن کا حصہ ہوں گے۔
مدار میں پہنچنے کے بعد پیگی وٹسن کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک زبردست سفر تھا۔‘ اس دوران ان کے ہم سفر ساتھی خوشی سے تالیاں بجاتے رہے۔
پیگی وٹسن بین الااقوامی خلائی سٹیشن کی پہلی خاتون کمانڈر ہوں گی۔
یہ امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن سے سپیس ایک کی دوسری کمرشل پرواز تھی۔
سپیس ایکس کی پہلی پرواز تین کاروباری شخصیات، اور ناسا کے ایک ریٹائرڈ خلا باز کے ساتھ گذشتہ سال روانہ کی گئی تھی۔
اس خلائی سفر کے لیے ناسا نے خوراک کی مد میں فی کس دو ہزار ڈالر اور دیگر سامان کے لیے فی کس 15 سو ڈالر روزانہ کی فیس مقرر کی ہے۔
گو کہ اس فلائٹ کے ٹکٹ کی قیمت کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن اس سے قبل راکٹ لانچ کرنے والی کمپنی ایکسیوم نے پانچ کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کی قیمت مقرر کی تھی۔
تاہم سفر کے دوران خلا بازوں کو ای میل اور ویڈیو کال کی سہولت مفت دستیاب ہو گی۔