’میں بے قصور ہوں‘: الزامات کی سماعت کے دوران ٹرمپ کا بیان

اپنے نجی طیارے پر واشنگٹن روانگی سے قبل ریگن نیشنل ائیر پورٹ پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ان کے خلاف بنائے گئے مقدمات ’سیاسی مخالف‘ پر مبنی ہیں۔

امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2020 کے انتخابات کے نتائج کو پلٹنے اور امریکی عوام کو دھوکہ دینے کی سازش جیسے مجرمانہ الزامات میں قصوروار نہ ہونے کی استدعا کی ہے۔

2024 کے صدارتی انتخابات کے لیے ریپبلکن پارٹی میں نامزدگی کی دوڑ میں اپنے حریفوں پر سبقت رکھنے والے ٹرمپ نے واشنگٹن کی اسی عدالت میں تقریباً 30 منٹ کی سماعت کے دوران اپنے اوپر لگائے گئے الزامات سے انکار کیا جہاں چھ جنوری 2021 کو امریکی پارلیمان پر ان کے سینکڑوں حامیوں کے حملے میں ان کردار کے لیے سزا سنائی گئی تھی۔

ٹرمپ نے مجسٹریٹ جج موکسیلا اپادھیائے سے کہا کہ ’میں قصور وار نہیں ہوں‘ جہنوں نے خصوصی وکیل جیک سمتھ کی جانب سے لائے گئے چار جرائم کے لیے 45 صفحات پر مشتمل فرد جرم پڑھ کر سنائی۔

77 سالہ سابق صدر پر پہلے ہی دو دیگر مجرمانہ مقدمات میں فرد جرم عائد کی جا چکی ہے اور ان نئے الزامات سے ان کی اگلے سال کی انتخابی مہم کے مزید الجھنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

اپنے نجی طیارے پر واشنگٹن روانگی سے قبل ریگن نیشنل ائیر پورٹ پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ان کے خلاف بنائے گئے مقدمات ’سیاسی مخالف‘ پر مبنی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ امریکہ کے لیے انتہائی افسوس ناک دن ہے۔

ان کے بقول: ’یہ اس شخص کے ساتھ ظلم ہے جو ریپبلکن کی پرائمریز میں سب سے آگے ہے اور جیسے صدر جو بائیڈن پر بھی سبقت حاصل ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’لہذا اگر آپ اسے ہرا نہیں سکتے تو آپ اسے ستاتے ہیں یا آپ اس پر مقدمہ چلا سکتے ہیں لیکن ہم امریکہ میں ایسا نہیں ہونے دے سکتے۔‘

بعد ازاں جمعرات کو ہی ٹرمپ نے اپنے ذاتی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ‘ پر طنزیہ انداز میں کہا کہ ان پر الزامات لگانے کے لیے انہیں ایک ’غلیظ، گندے، ٹوٹ پھوٹ کے شکار اور انتہائی غیر محفوظ واشنگٹن‘ کا سفر کرنا پڑا، یہ بہت اچھا دن تھا۔‘

جج نے کیس کی اگلی سماعت 28 اگست کو امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ کی جج تانیہ چٹکن کو سونپی ہے جو حتمی مقدمے کی صدارت کریں گی۔

جج اپادھیائے نے کہا: ’میں ہر ایک کو ضمانت دے سکتی ہوں کہ یہ ایک منصفانہ قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل ہوگا۔‘

سماعت کے وقت واشنگٹن کے فیڈرل کورٹ ہاؤس کے ارد گرد سکیورٹی سخت تھی جہاں رکاوٹیں لگائی گئیں اور پولیس کا گشت جاری رہا۔

اس موقعے پر پلے کارڈز اٹھائے ہوئے ٹرمپ کے حامی اور مخالف مظاہرین کے چھوٹے گروپس بھی عدالت کے باہر موجود تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک پلے کارڈ پر ’ٹرمپ کو ہمیشہ کے لیے جیل بھیجو‘ تحریر تھا۔ ایک حامی نے پلے کارڈ پر ’ٹرمپ 24‘ لکھا تھا۔

ہیوسٹن کے 52 سالہ ڈیو ورنر نے کہا: ’ہم اںہیں (ٹرمپ کو) دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ تاریخ کا حصہ ہے۔‘

ڈیلاویئر میں چھٹیاں گزارنے کے دوران موٹر سائیکل کی سواری کرتے صدر جو بائیڈن سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ ٹرمپ کی گرفتاری کی پیروی کریں گے تو انہوں نے نفی میں جواب دیا۔

دا ہیگ میں جنگی جرائم کے سابق پراسیکیوٹر سمتھ نے ٹرمپ پر الزام لگایا ہے کہ وہ امریکہ کو دھوکہ دینے کی سازش اور سرکار کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے اور اپنی جیت کے جھوٹے دعووں سے ووٹروں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے میں ملوث ہیں۔

فرد جرم میں کہا گیا کہ ’سازش کا مقصد انتخابی دھاندلی کے حوالے سے جان بوجھ کر جھوٹے دعووں کا استعمال کرکے 2020 کے صدارتی انتخابات کے جائز نتائج کو الٹنا تھا۔‘

سمتھ نے ٹرمپ کے اقدامات کو کیپٹول ہل پر حملے سے بھی جوڑا جسے انہوں نے امریکی جمہوریت پر بے مثال حملہ قرار دیا۔

ٹرمپ کے خلاف اگلے سال مئی میں فلوریڈا میں مقدمے کی سماعت ہونے والی ہے، اس مقدمے میں ان پر خفیہ دستاویز کے ساتھ لاپروئی برتنے کا الزام ہے۔

دو بار مواخذے کا سامنا کرنے والے سابق صدر کو نیویارک میں ایک پورن سٹار کو مبینہ طور پر انتخابات کے موقع پر خاموش کرانے کے لیے بھاری رقم دینے کے الزام میں بھی مجرمانہ الزامات کا سامنا ہے۔

ٹرمپ نے ان دونوں مقدمات میں بھی بے قصور ہونے کی استدعا کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ