صوبہ پنجاب کے شمال میں واقع ضلع اٹک کے ساتھ صوبہ خیبر پختونخوا ملحق ہے، جبکہ اس کا نام دونوں صوبوں کے سنگھم پر اکبری دور میں تعمیر کیے گئے قلعہ’اٹک بنارس‘ کی وجہ سے پڑا ۔
قلعہ ’اٹک بنارس‘ کی تعمیر سے پہلے اس علاقے کو ’اٹک‘ کے نام سے پکارے جانے کی کوئی شہادت نہیں ملتی، تاہم اس کے نام کے پیچھے بہت سی روایات اور کئی قصے مشہور ہیں، جن میں دو تین روایات کافی معروف ہیں ۔
ایک روایت یہ ہےکہ قلعہ ’اٹک بنارس‘ جی ٹی روڈ پر دریائے سندھ کے کنارے موجودہ اٹک خرد کے مقام پر واقع ہے۔ اس قلعے کو 1581 میں مغل بادشاہ اکبر اعظم نے اپنے سوتیلے بھائی مرزا حکیم، جو کابل کے گورنر تھے، کو شکست دینے کے بعد ہندوستان کی جانب واپس آتے ہوئے بنوایا تھا۔
لفظ اٹک گوجری زبان کا لفظ ھے، جس کا معنی ’رک جانا‘ اور ’اٹکنے‘ کے ہیں۔ افغانستان سے آنے والے قافلے اور ہند سے افغانستان یا دوسرے علاقوں میں جانے والے قافلے یہاں دریا کی وجہ سے رکا کرتے تھے۔
یہ قلعہ مغربی حملوں کے واسطے ایک اٹکاؤ یا رکاوٹ کے طور بنایا گیا تھا اس لیے اس کا نام اٹک رکھا گیا۔
تیسرا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس مقام پر دریائے سندھ رُک رُک کر چلتا ہے اس لیے اس کا نام ’اٹک‘ پڑ گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ 1904 میں ضلع بننے والے اٹک شہر کو 1908 میں انگلش آرمی کمانڈر ان چیف سر کولن کیمبل نے نئے سرے سے تعمیر کیا اور اٹک خورد کے مقام پر اس کا سنگ بنیاد رکھا اور اٹک کو کیمبل پور کا نام دیا تھا۔
تقریباً 70 سال تک کیمبل پور کے نام سے جانے جانے والے اس ضلعے کو 1978 میں ایک مرتبہ پھر اٹک کا نام دیا گیا۔
اٹک میں بہت سی پرانی عمارات کا وجود تو اب بھی قائم ہے لیکن کیمبل پور نام کے نقوش تقریباً مٹ چکے ہیں البتہ اٹک کے جنرل پوسٹ آفس میں کیمبل پور سے کندہ پرانی مہر، گورنمنٹ کالج اٹک میں ایک پرانی میز پر پیوست پیتل کی پٹی، کالج کے سربراہان والے بورڈ پر لکھا ٹائٹل اور چند گھروں کے اوپر لگی پلیٹیں موجود ہیں۔
تقریباً سات ہزار مربع کلومیٹر کے اس شہر کی آبادی ساڑھے 91 ہزار نفوس پر مشتمل ہے، جب کہ فتح جنگ، حضرو، حسن ابدال، جنڈ اور پنڈی گھیپ اس کی تحصلیں ہیں۔