جڑانوالہ: مبینہ توہینِ مذہب کے بعد گرجا گھروں کی توڑ پھوڑ

پولیس ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شہریوں نے اس واقعے کے بعد مسیحی بستی کا گھیراؤ کر کے توڑ پھوڑ کی اور چرچ کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے۔

پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں پولیس نے دو مسیحی نوجوانوں کے خلاف توہین مذہب کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے، جب کہ واقعے پر کشیدہ صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے اسسٹنٹ کمشنر فیصل آباد نے جڑانوالہ میں رینجرز طلب کر لی ہے۔

کمشنر نے ایڈیشنل سیکریٹری انٹرنل سکیورٹی کو خط میں لکھا ہے کہ پولیس کی کوششوں کے باوجود امن و امان کی صورتِ حال نازک اور مخدوش ہے۔ حالات پر قابو پانے کے لیے چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب بھی فیصل آباد پہنچ گئے ہیں۔

ضلع فیصل آباد میں سات دن کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر فیصل آباد کی جانب سے نوٹیفیکیشن کے مطابق ہر قسم کے احتجاج، دھرنا، جلسہ وغیرہ کی اجازت نہیں ہو گی۔

ایف آئی آر میں توہین مذہب کے الزام میں راجہ عامر سلیم اور راکی مسیح کو نامزد کیا گیا ہے۔

جڑانوالہ میں پولیس کے مطابق مبینہ توہین مذہب کے بعد مظاہرین نے مسیحی بستی کا گھیراؤ کر رکھا ہے، توڑ پھوڑ اور چرچ جلانے کے واقعات کے بعد پولیس کی نفری پہنچ گئی ہے اور افسران موقعے پر موجود ہیں۔

پولیس ترجمان فیصل آباد محمد نوید کے مطابق ایک مسیحی نوجوانوں پر اہل علاقہ نے توہین مذہب کا الزام لگایا ہے جس کے بعد مساجد سے اعلانات کرائے گئے اور اہل علاقہ کی بڑی تعداد جمع ہو گئی۔

پولیس کے مطابق مظاہرین کو پر امن رہنے اور منتشر ہونے پر قائل کیا جا رہا ہے۔

اُدھر فیصل آباد کے مسیحی رہنما اکمل بھٹی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’راجہ عامر سلیم ولد سلیم مسیح پر توہین مذہب کا الزام لگا کر 150 گھروں پر مشتمل بستی پر دھاوا بول دیا گیا ہے۔ جان بچانے کے لیے مسیحی شہری گھر خالی کر کے ادھر ادھر علاقوں میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں منتقل ہو چکے ہیں۔ مظاہرین نے مسیحی برادری کے گھروں اورچرچ میں توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا دی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اکمل بھٹی کے مطابق ’راجہ سلیم مسیح پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے  قرآن پاک کے اوراق پھاڑے اور پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخانہ تحریر لکھی ہے۔ جس کے بعد مساجد میں اعلان کرا دیے گئے کہ مسیحیوں نے دین اسلام کی توہین کی ہے، انہیں سبق سکھانے کے لیے سب لوگ سینما چوک کے قریب مسیحی بستی پہنچیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس معاملے پر پولیس بھی بےبس دکھائی دیتی ہے، بہت بڑی تعداد میں لوگ جمع ہیں اور وہ شدید ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ امن و امان قائم کرنے کے لیے انتظامیہ کو موثر حکمت عملی اپنانا ہو گی۔‘

لوگ دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور

جڑانوالہ کرسچن کالونی کے رہائشی شیخ فاروق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود پولیس مشتعل افراد کے سامنے بےبس دکھائی دے رہی ہے۔ ڈیڑھ سو کے قریب مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے مرد، خواتین اور بچے قریبی مسلمان آبادی میں چھپے ہوئے ہیں۔ میں بھی ایک مسلمان دوست کے گھر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ موجود ہوں۔

’ایک متعلقہ پولیس افسر کو فون کیا کہ تحفظ فراہم کریں ہمیں گھر تک پہنچا دیں اگر حالات بہتر ہو گئے ہیں، مگر انہوں نے بےبسی کا اظہار کیا اور کہا ابھی ایسا ممکن نہیں، آپ جہاں ہیں وہیں ٹھہریں جب حالات کنٹرول ہو جائیں گے تو آپ کو یہاں سے منتقل کردیا جائے گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’جو مسلم گھرانے مسیحی افراد کو پناہ بھی دے رہے ہیں انہیں بھی مشتعل افراد ہراساں کر رہے ہیں اور دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ابھی تک نہ یہاں رینجرز پہنچی ہے اور نہ ہی مشتعل افراد کو پوری طرح قابو کیا جا سکا ہے۔ پولیس نے مقدمہ بھی درج کر لیا مگر وہ پولیس کی بات ماننے کی بجائے دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘

ایک اور متاثرہ خاور مسیح نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مشتعل افراد نے ان کے گھر بھی توڑ پھوڑ کی ہے اور سارا سامان جلا دیا جبکہ ان کا اس سارے معاملہ سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے اپنی فیملی کے ساتھ فیصل آباد میں پناہ لے رکھی ہے، ’لیکن ابھی صورت حال ایسی نہیں لگ رہی کہ واپس گھر چلے جائیں، لہٰذا جب تک پوری طرح حالات قابو میں نہیں آتے گھر جانا مشکل ہے۔‘

پولیس حکام اس واقعے سے متعلق کوئی بھی معلومات فراہم کرنے کو تیار نہیں۔ سی پی او فیصل آباد عثمان گوندل سے بار بار رابطہ کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے کوئی تفصیل فراہم نہیں کی۔

نگران وزیرِ اعظم کی مذمت

نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے ٹوئٹر پر اس واقعے کے بارے میں لکھا ہے: ’جڑانوالہ سے سامنے آنے والے مناظر سے مجھے سخت صدمہ پہنچا ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑیں اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ یقین رکھیں کہ حکومت پاکستان برابری کی بنیاد پر اپنے شہریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔‘

 

سابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے، جب کہ تحریکِ انصاف نے مقامی انتظامیہ، پولیس اور حکومتی مشینری کی جانب سے امنِ عامہ کی صورت حال بررقرار رکھنے میں ناکامی کی مذمت کی ہے۔

پولیس ترجمان فیصل آباد محمد نوید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شہریوں نے اس واقعے کے بعد مسیحی بستی کا گھیراؤ کیا ہے اور توڑ پھوڑ بھی کی ہے۔ چرچ کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے تاہم پولیس کی بھاری نفری اور پولیس افسران فوری وہاں پہنچے اور مظاہرین کو پر امن کر دیا ہے۔ لیکن ان سے بات چیت جاری ہے اور آبادی میں بھی پولیس موجود ہے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔

’واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا البتہ گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ راجہ سلیم مسیح ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکے اور ان کی تلاش بھی جاری ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کو حاصل معلومات کے مطابق پولیس افسران نے موقع پر مقامی مذہبی رہنماؤں کو بھی بلایا اور ان سے مل کر جمع ہونے والے مظاہرین سے پر امن رہنے کی درخواست کی ہے۔

آخری اطلاعات آنے تک صورت حال کشیدہ دکھائی دے رہی تھی کیوں کہ مظاہرین ملزم کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان