جون 1947، نسبت روڈ، لاہور: رام چندر کو کئی راتوں سے نیند نہیں آرہی تھی، ہر لمحے اسے دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں بلوائی اس کے گھر کا دروازہ توڑ کر اندر داخل نہ ہو جائیں اور اس کی دو جوان بیٹیوں کو اٹھا کر نہ لے جائیں۔
ذرا سے کھٹکے پر وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا اور اپنی چارپائی کے ساتھ رکھا ہوا ڈنڈا پکڑ لیتا کہ یہی اس کا واحد ہتھیار تھا۔
وہ ایک شریف اور سیدھا سادہ دکان دار تھا۔ لڑائی بھڑائی کا اسے کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اس کی رہائش نسبت روڈ پر تھی جب کہ کاروبار شاہ عالم مارکیٹ میں، جہاں اس کی برتنوں کی دکان تھی۔
وہ صبح سویرے اپنی دکان کھولتا، لکشمی دیوی کے آگے ماتھا ٹیکتا، کاروبار کی ترقی کی دعا کرتا اور پھر شام تک دکان میں ہی مصروف رہتا۔ کئی برسوں سے اس کا یہی معمول تھا۔
لیکن اب کچھ ہفتوں سے اس معمول میں تبدیلی آگئی تھی۔ شاہ عالم مارکیٹ بند تھی۔ رام چندر نے سنا تھا کہ وہاں مسلمانوں نے ہندوؤں کی دکانوں کا سامان لوٹ کر آگ لگا دی ہے۔ کسی نے بتایا کہ اس کی دکان بھی ان تباہ شدہ دکانوں میں شامل تھی۔ کچھ مزید دل ہلا دینے والے قصے بھی اس نے سنے تھے۔
موہنی روڈ پر چند بلوائیوں نے ہندو تاجروں کے مکانات پر دھاوا بول کر نہ صرف ان کا مال و متاع لوٹ لیا بلکہ ایک مکان میں دو جوان لڑکیوں کو ان کے باپ اور بھائی کے سامنے بے آبرو کر کے وہیں قتل بھی کر دیا۔
سننے میں آیا تھا کہ یہ گھناؤنی حرکت کرنے والے گذشتہ 20 برس سے اس ہندو تاجر کے ہمسائے تھے اور ہر خوشی غمی میں شریک ہوتے تھے۔ ان تمام واقعات نے رام چندر کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بالکل ختم کر دی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے کچھ رشتہ دار تو پہلے ہی اپنا گھر بار چھوڑ کر امرتسر چلے گئے تھے، جبکہ باقیوں نے بھی سامان باندھ کر رکھ لیا تھا اور کسی مناسب موقع کے انتظار میں تھے۔
رام چندر اپنا مکان نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ یہ مکان اس کے دادا نے بنایا تھا۔ یہاں اس کا بچپن گزرا تھا۔ نسبت روڈ کی گلیوں میں کھیل کر وہ جوان ہوا تھا۔ اپنے باپ کی انگلی پکڑ کر وہ بابے نذر محمد کی دکان پر جایا کرتا تھا، جہاں سے اس کا باپ اسے من پسند چیزیں لے کر دیتا تھا۔
نذر محمد ان چیزوں کے ساتھ رام چندر کو ’چونگے ‘ میں ٹافیاں بھی دیتا اور ساتھ اس کی صحت اور سلامتی کی دعا کرتا۔
نسبت روڈ پر اس کے برسوں پرانے یار بیلی تھے۔ اس کے بچپن کی محبت تھی۔ وہ چوبارے تھے، جہاں وہ گھنٹوں جیوتی کے ساتھ بیٹھ کر مستقبل کے خواب بُنا کرتا تھا۔ اِس نسبت روڈ کو چھوڑ کر وہ کیسے جا سکتا تھا۔
مگر اب اس کی دو جوان بیٹیاں اور ایک بیوی تھی جسے دمے کا مرض تھا۔ خود اس کی بھی صحت ایسی نہیں تھی کہ وہ لاہور سے امرتسر کا سفر کر سکے۔ یہ سب کچھ سوچ کر اسے نیند نہیں آتی تھی۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
بلوائیوں نے رام چندر کو اس کے آبائی مکان میں گھس کر قتل کر دیا۔ بلوائیوں میں ایک لڑکا 19 برس کی عمر کا تھا، جسے رام چندر نے گود میں کھلایا تھا۔ رشید احمد نام تھا اس کا۔ مرتے وقت رام چندر صرف اتنا دیکھ سکا کہ رشید احمد اس کی بیٹیوں کے کمرے کی طرف جا رہا ہے اور اندر سے چیخوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔
جون 1947، چِٹّا کڑا، مولوی غلام علی دی گلی،امرتسر: فاروق حسین کو جب گیتا پر بہت پیار آتا تو وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگا لیتا۔ اس روز بھی اس نے ایسا ہی کیا لیکن نہ جانے کیوں گیتا کو لگا کہ فاروق کا ہاتھ لرز رہا ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہ کی اور سامنے دیکھنے لگے۔
منظر کچھ خاص نہیں تھا۔ بس ایک میدان تھا، جس کے آگے درختوں کا جھُنڈ تھا اور ساتھ ہی خشک ٹیلا تھا۔ وہ چِٹا کڑا سے نکل کر اکثر یہاں آیا کرتے اور گھنٹوں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یہ منظر دیکھتے تھے۔ لیکن اب انہیں لگتا تھا کہ وہ یہاں کبھی نہیں آ سکیں گے۔ شاید اسی لیے کچھ نہ کہہ کر بھی دونوں کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
یہ بالکل عام سی جگہ تھی مگر ان کا لڑکپن اور جوانی یہاں گزری تھی۔ ان کے لیے یہ جگہ جنت کا ٹکڑا تھی۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کی زندگیوں میں ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ انہیں یہ جگہ اور اپنا گھربار چھوڑ کر کہیں اور جانا پڑے گا۔ آج کل ان کے گھروں میں یہی باتیں ہوتی تھیں۔
فاروق حسین کا باپ امرتسر کے ہال بازار میں سُنار تھا، جس دن اس نے سنا کہ ہندوؤں کے ایک جتھے نے امرتسر کے محلے میں مسلمانوں کے مکانات کو آگ لگا کر سب کو قتل کر دیا ہے اور مرنے والوں میں چھ ماہ کا ایک بچہ بھی شامل ہے، اس دن فاروق حسین کے باپ نے فیصلہ کر لیا کہ وہ امرتسر چھوڑ کر پاکستان چلا جائے گا اور جب حالات ٹھیک ہو جائیں گے واپس آئے گا۔
اس کے سامنے والے مکان میں اس کا جگری دوست امر سنگھ رہتا تھا۔ امر سنگھ نے اسے یقین دلایا کہ اس کے ہوتے ہوئے بلوائی چِٹّا کڑا میں نہیں آئیں گے۔
’آخر ہم کئی سال سے اکٹھے رہ رہے ہیں ، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اب مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ دیں۔‘ یہ امر سنگھ کے الفاظ تھے، مگر ایک رات ہندوؤں اور سکھوں کا ایک جتھا چِٹّا کڑا، مولوی غلام علی دی گلی میں داخل ہوا۔ بلوائیوں نے ہاتھ میں کرپان اور برچھیاں پکڑی ہوئی تھیں۔
اکثر کی عمریں 20 اور 25 سال کے درمیان تھیں۔ ان میں سے ایک نے، جس کا نام بلجیت سنگھ تھا، آگے بڑھ کے فارو ق حسین کے مکان کے دروازے کو توڑنا چاہا لیکن امر سنگھ سامنے آ کر کھڑا ہوگیا۔’اِس گھر میں کوئی نہیں جائے گا۔ یہ میرے یار کا گھر ہے۔ سمجھو میرا گھر ہے،‘ امر سنگھ کڑک کر بولا۔ بلجیت کی آنکھیں ایک لمحے کے لیے حیرت سے پھیل گئیں مگر پھر یک دم ان میں نفرت اُمڈ آئی۔
’اگر یہ تیرا گھر ہے امر سنگھ تو پھر تو بھی انہی کے ساتھ جا، تیری بیٹیاں بھی، بیوی بھی اور جوان لڑکا بھی۔‘ امر سنگھ کانپ اٹھا۔ اس نے مجمع کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں بھی اسے نفرت کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔ وہ چپ چاپ سامنے سے ہٹ گیا۔
بلوائیوں نے ایک ہی ہلے میں دروازہ توڑا اور اندر داخل ہو گئے ۔فاروق حسین نے انہیں روکنا چاہا مگر بلجیت نے ایک ساتھی کی مدد سے اسے فرش پر لٹایا اور اس کے باپ کے سامنے اس کے گلے پر چھری پھیر دی۔ بیٹے کے خون کے چھینٹے باپ کی سفید قمیض پر پڑے۔ قمیض سُرخ ہو گئی۔
اس رات چِٹّا کڑا، مولوی غلام علی دی گلی میں مسلمانوں کے مکانات سے بیس لاشیں ملیں اور چار جوان لڑکیاں لاپتہ ہوئیں۔
14 اگست 1947: یہ آل انڈیا ریڈیو لاہور ہے۔ آپ کو آزادی مبارک ہو۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات اور تجزیے پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔