رانی پور: 10 سالہ بچی فاطمہ کی مبینہ تشدد سے موت، ملزم گرفتار

ڈی آئی جی سکھر نے کہا ہے کہ اگر والدین خوف کے باعث مقدمے میں مدعی بننا نہیں چاہتے تو پولیس کی مدعیت میں ایف آئی آر کاٹی جائے گی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر وائرل سی سی ٹی وی فوٹیج کی ویڈیو میں بچی کو زمین پر بچھے بستر پر لوٹ پوٹ ہوتے دیکھا گیا (ویڈیو سکرین گریب/ جی ایم مسان فیس بک اکاؤنٹ)

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی آئی جی) سکھر ریجن کے ترجمان فیاض ڈاہری کے مطابق ضلع خیرپور کے شہر رانی پور میں گھریلو ملازمہ 10 سالہ فاطمہ کی تشدد سے موت والے واقعے کے مرکزی ملزم پیر اسد شاہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے فیاض ڈاہری نے کہا کہ ڈی آئی جی سکھر ریجن جاوید جسکانی نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ایس ایچ اور رانی پور اور ایس پی آئی کو معطل کر دیا ہے، جبکہ واقعے کا مقدمہ رانی پور تھانے پر دائر کر دیا گیا ہے۔  

فیاض ڈاہری کے مطابق : ’ڈی آئی سکھر جاوید جسکانی نے ایس ایس پی خیرپور کی سربراہی میں تین رکنی ٹیم تشکیل دی ہے تو اس واقعے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر ڈی آئی جی کو رپورٹ کرے گی۔ اس کے علاوہ پوسٹ مارٹم کے بغیر بچی کی تدفین کے باعث سیشن کورٹ کو درخواست دی گئی ہے کہ بچی کی قبر کشائی کی اجازت دی جائے، تاکہ پوسٹ مارٹم کیا جا سکے۔‘

بدھ کی صبح سے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر وائرل سی سی ٹی وی فوٹیج کی ویڈیو میں ایک بچی کو زمین پر بچھے بستر پر لوٹ پوٹ ہوتے دیکھا گیا۔ ویڈیو اور تصاویر آنے کے بعد ٹوئٹر صارفین ہیش ٹیگ ’جسٹس فار فاطمہ‘ کا ٹرینڈ بھی چلا رہے ہیں۔ 

ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی نے سندھی زبان کے ٹی وی چینل سندھ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر والدین خوف کے باعث مقدمے میں مدعی بننا نہیں چاہتے تو پولیس کی مدعیت میں ایف آئی آر کاٹی جائے گی۔

رانی پور کے مقامی صحافیوں کے مطابق فاطمہ کے والدین نوشہروفیروز ضلع کی تحصیل خان وان کے گاؤں علی محمد پھرڑو کے رہائشی ہیں اور فاطمہ گذشتہ ایک سال سے پیر آف رانی پور کی حویلی میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو بیان میں فاطمہ کی والدہ شبانہ نے کہا کہ فاطمہ کے علاوہ ان کی دو مزید بیٹیاں بھی پیر آف رانی پور کی حویلی میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہیں جو فاطمہ کی موت کے باجود تاحال واپس نہیں آئی ہیں۔

شبانہ پھرڑو کے مطابق: ’میری بیٹی فاطمہ کو (رانی پور ٹاؤن کمیٹی کے وائس چیئرمین) پیر فیاض شاہ تقریباً نو مہینے پہلے گھر میں کام کے لیے لے گئے۔ بعد میں انہوں نے میری بیٹی کو اپنے داماد پیر اسد شاہ کو دے دیا۔ اس عرصے کے دوران میری بیٹی پر کئی بار تشدد ہوا۔ مگر وہ مجھے نہیں بتاتی تھیں۔ 

’مجھے بتایا گیا کہ میری بیٹی کی بخار کے باعث موت ہو گئی مگر جب لاش ملی گردن اور پیٹھ پر شدید تشدد کے نشانات تھے، بازو اور پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ مجھے پیر آف رانی پور سے انصاف دلایا جائے۔‘

گرفتاری سے قبل سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو بیان میں ملزم پیر اسد شاہ نے کہا : 'فاطمہ کے والدین ہمارے گدی کے مرید ہیں۔ ہم فاطمہ کا بہت خیال رکھتے تھے، جو خود کھاتے وہ ان کو کھلاتے اور انہیں باہر گرمی لگتی تھی تو ہمارے ساتھ ایئرکنڈیشن میں سلاتے تھے۔

’فاطمہ کے والدین نے ہم سے کوئی شکایت نہیں کی۔ کچھ لوگ سوشل میڈیا پر کیس کو اچھال رہے ہیں، ورنہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔‘ 

پیر اسد شاہ کے مطابق 12 اگست کو فاطمہ کی طبیعت خراب ہو گئی تو انہوں نے اپنے فیملی ڈاکٹر کو دکھایا، ڈاکٹر نے دوائی دینے کے ساتھ ٹیسٹ لکھ کر دیے۔ 13 اگست کو پتہ چلا کہ فاطمہ کو ہیپاٹائٹس ہوگئی۔ جس کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔

پیر اسد شاہ کا کہنا ہے کہ ’سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو جس میں بچی لوٹ پوٹ ہو رہی ہے وہ ویڈیو ہماری حویلی کی سی سی ٹی وی فوٹیج ہے جو میں نے خود فاطمہ کے والدین کو بھیجی تھی۔ اگر کوئی ایسی بات ہوتی تو میں اپنے ہی گھر کی سی سی ٹی وی فوٹیج کیوں شیئر کرتا؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان