لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں بچے کو فوری طبی امداد نہ ملنے پر اس کے رشتہ داروں اور ڈاکٹروں کے درمیان تلخ کلامی اور ہاتھا پائی کا تازہ واقعہ پیش آیا ہے۔
پنجاب میں سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے لواحقین کے ڈاکٹروں پر تشدد کے واقعات میں حالیہ دنوں کے دوران اضافہ دیکھا گیا ہے۔
متعدد بار ڈاکٹروں کی جانب سے بھی مریضوں کے رشتہ داروں پر تشدد کے واقعات بھی رپورٹ ہوچکے ہیں۔
لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں تین روز کے دوران مریض بچوں کے لواحقین کی جانب سے ڈاکٹروں پر تشدد کے دو سنگین واقعات پیش آچکے ہیں۔
بدھ کے روزہونے والے ایک واقعے میں ڈاکٹر شدید زخمی ہیں۔ انہوں نے سندھ پولیس کے اے ایس آئی پر دیگر رشتہ داروں کے ساتھ مل کر بچے کی موت کے بعد ڈاکٹرز کو زد و کوب، تشدد اور ایک ڈاکٹر کو شدید زخمی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
ان واقعات پر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی کال پر لاہور سمیت پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں او پی ڈی بند ہے جس سے مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
حکومت پنجاب کی جانب سے ڈاکٹر پر مبینہ تشدد کرنے والے پولیس افسر اور ان کے رشتہ داروں کی گرفتاری کے بعد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے اور محکمانہ کارروائی کے لیے سندھ پولیس سے بھی رجوع کیا گیا ہے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائے ڈی اے) کے مطابق ان کے مطالبات ابھی پورے نہیں ہوئے اس لیے ہڑتال جاری ہے اور جب تک اس کا مستقل حل نہیں کیا جاتا ہڑتال جاری رہے گی۔
وائے ڈی اے کے حکومت کے ساتھ مذاکرات بھی جاری ہیں جو ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے۔
چلڈرن ہسپتال لاہور میں واقعات کیسے پیش آئے؟
لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں جمعے کو صبح سویرے ایک بچے کے رشتہ داروں نے فوری طبی امداد نہ ملنے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اس دوران انہوں نے مبینہ ھور پر ڈاکٹروں سے تلخ کلامی اور ہاتھا پائی کی۔
اسی طرح 31 مئی 2023 کو بھی صبح سویرے چلڈرن ہسپتال میں حاصل پور سے علاج کے لیے لائی گئی بچی کی موت پر اس کے لواحقین نے مبینہ طور پر ڈاکٹروں پر تشدد کیا۔
اس دوران ڈاکٹر سعد کو شدید چوٹیں آئیں اور بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی اب وہ زیر علاج ہیں۔
ینگ ڈاکٹرز پنجاب کے صدر ڈاکٹرمدثر اشرفی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بچی ہسپتال میں داخل تھی بدھ کی صبح اس کی طبیعت بگڑ گئی۔ اس دوران ان کے لواحقین نے گھبرا کر شور شرابا شروع کر دیا، وہاں موجود لیڈیز سٹاف نے طبی امداد دی اور ڈاکٹر سعد بھی وہاں آگئے اسی دوران بچی دم توڑ گئی۔‘
ان کے بقول: ’سٹاف اور ڈاکٹر نے بچی کو دستیاب سہولیات کے مطابق طبی امداد دی مگر انہوں نے مار کٹائی شروع کر دی اور ڈاکٹر سعد کو مارتے رہے جس سے ان کے بازوں کی ہڈی ٹوٹ گئی وہ شدید زخمی حالت میں زیر علاج ہیں۔‘
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق: ’ہسپتالوں میں مریضوں کے لواحقین کا ڈاکٹروں پر تشدد ناقابل معافی جرم ہے۔ ڈاکٹروں نے اپنی کوشش کی بچی صحت یاب نہیں ہوئی تو اس میں ڈاکٹروں کا کیا قصور ہے۔ مریض بچی کے چاچا سندھ پولیس میں اے ایس آئی ہیں انہوں نے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ مل کر ڈاکٹر سعد پر بدترین تشدد کیا۔‘
انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’واقعے کی نوعیت دیکھتے ہوئے گرفتار ملزموں کے خلاف درج ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات شامل کرا دی گئی ہیں اور سندھ پولیس کو اے ایس آئی کے خلاف محکمانہ کارروائی کے لیے بھی لکھ دیا ہے۔‘
ہسپتالوں میں پر تشدد واقعات بڑھنے کی وجوہات
وائی ڈی اے کے ڈاکٹر مدثر اشرفی کے بقول: ’پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں گذشتہ چند ماہ کے دوران 70 سے زائد پر تشدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔ ان واقعات میں زیادہ تر ڈاکٹرز کو ہی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور تشدد کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی نہیں ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز ایسے واقعات پیش آرہے ہیں۔ جمعے کی صبح بھی چلڈرن ہسپتال کے میڈیکل وارڈ میں بچے کے والدین نے ڈاکٹروں سے جھگڑا کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے۔ جتنی تعداد میں مریض آتے ہیں اس کے مقابلہ میں ڈاکٹروں کی تعداد بہت کم ہے ایک ایک ڈاکٹر کو ایمرجنسی میں 50 سے 60 مریضوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔ طبی آلات اور آپریشن تھیٹروں سمیت ٹیسٹ کرنے والی مشینری بھی ضرورت سے کہیں کم ہے۔‘
ان کے خیال میں ’ان حالات میں ہسپتال لائے گئے مریضوں کے لواحقین کو بھی جلدی پڑی ہوتی ہے۔ جب ڈاکٹروں کی دوسرے مریضوں کے علاج سے تھوڑی تاخیر ہوتی ہے تو وہ غصے میں آکر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ جس سے پر تشدد واقعات جنم لے رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہسپتالوں میں مفت ملنے والی ادویات بھی کئی بار دستیاب نہیں ہوتیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مدثر اشرفی نے کہا کہ ’ڈاکٹر سعد پر تشدد کرنے والوں کے خلاف تو کارروائی ہوگی لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ پنجاب میں ڈاکٹروں کے لیے ایسے ہی خصوصی تحفظ کا قانون بنایا جائے جو حالیہ دنوں میں وکلا کے لیے بنایا گیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں سرکاری ہسپتالوں میں سکیورٹی بڑھا کر کوئک رسپانس فورس تعینات کی جائے تاکہ ڈاکٹرز اور عملہ خود کو محفوظ تصور کرے اور فرائض بے خوف ہوکر انجام دے۔‘
ڈاکٹر مدثر نے کہا کہ ’ابھی ہم نے پورے پنجاب میں صرف او پی ڈی بند کرنے کی کال دے رکھی ہے۔ حکومت سے مزاکرات جاری ہیں آج جمعے کو بھی ہوں گے۔ اگر مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے تو ہم اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔‘
وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق: ’ڈاکٹروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ تشدد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے پہلے بھی قانون موجود ہیں۔ وائے ڈی اے کے مذید مطالبات کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے اور ان سے بات چیت بھی جاری ہے امید ہے جلد ہی کوئی مناسب حل نکال لیا جائے گا۔‘
کچھ عرصہ قبل لاہور کے پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال میں وکلا مریض کا اعلاج کرانے آئے تو ڈاکٹروں سے تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد ڈاکٹروں نے دو وکلا پر تشدد کیا تھا پھر وکلا بڑی تعداد میں کارڈیالوجی ہسپتال آئے تھے اور ڈاکٹروں سمیت دیگر عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا جس سے کئی ڈاکٹر زخمی ہوگئے تھے۔
ہسپتال پر حملے کا مقدمہ بھی درج ہوا تھا جس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے بھانجے حسان نیازی بھی نامزد ملزم رہے۔ پھر حکومت بار ایسوسی ایشنز کے نمائندوں اور ڈاکٹروں کے نمائندوں نے مل کر صلح کرائی تھی۔