آفیشل سیکرٹ ایکٹ: شاہ محمود قریشی کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت میں پیر کو پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی پہلی اِن کیمرا سماعت ہوئی، جس کے بعد انہیں چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو 19 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا (تصویر: شاہ محمود قریشی آفیشل فیس بک پیج)

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ملک بھر کے لیے اسلام آباد میں ایک خصوصی عدالت قائم کر دی گئی، جہاں پیر کو پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی پہلی اِن کیمرا سماعت ہوئی، جس کے بعد انہیں چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حوالے کر دیا گیا۔

شاہ محمود قریشی کے خلاف درج مقدمے کی سماعت بند دروازوں کے پیچھے تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی تھی۔

خصوصی عدالت کے قیام کا نوٹیفکیشن رواں برس جون میں جاری کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات نے کمرہ عدالت میں اس بات کی تصدیق کی اور کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم عدالت میں اِن کیمرا سماعت ہو گی۔

اس حوالے سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت نمبر ایک کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین خصوصی عدالت کے جج مقرر کیے گئے ہیں، جو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات کی سماعت کریں گے۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے پیر کو میڈیا نمائندگان کو تصدیق کی کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ملک بھر میں ایک ہی عدالت ہو گی۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب نوٹیفکیشن کی نقل کے مطابق رواں برس 27 جون کو وزارت قانون نے خصوصی عدالت اور جج کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے تین جولائی کو نوٹیفکیشن جاری کر کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کو نئی تعیناتی جوائن کرنے کی ہدایت کی، جس کی مدت دسمبر 2025 تک ہے۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے تحت پہلا مقدمہ

آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے تحت سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کی مدعیت میں مقدمے کا اندراج ہو چکا ہے، جس میں انہیں حساس سفارتی دستاویز سائفر کو عام کرنے اور حساس دستاویز کو سیاسی مفاد اور ملکی اداروں کے خلاف استعمال کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

دستیاب معلومات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان، جو پہلے ہی اٹک جیل میں قید ہیں، انہیں بھی اس مقدمے میں شامل کر لیا گیا ہے جبکہ شاہ محمود قریشی کو 19 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اتوار (20 اگست) کو سابق وفاقی وزیر اسد عمر کو بھی ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیررازم ونگ نے پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے درج کی گئی ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ اسد عمر اور اعظم خان کے کردار کا تعین کیا جائے گا اور اگر وہ ملوث نکلے تو ان کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور اس کے علاوہ اگر کوئی اور بھی ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے لیے قائم کی گئی خصوصی عدالت اب سابق وزیراعظم عمران خان اور شاہ محمود سے متعلق مقدمے کی سماعت کر رہی ہے، جس کی سماعتیں اِن کیمرہ ہوں گی۔

کیا عمران خان خصوصی عدالت میں پیش ہوں گے؟

سابق جج شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ ابھی تو کیس ابتدائی مراحل میں ہے لیکن دونوں نامزد ملزمان کی دستاویزات میں گرفتاری ہو چکی ہے۔

بقول شاہ خاور: ’شاہ محمود قریشی کو آج عدالت میں پیش بھی کیا گیا ہے جبکہ ملزم اور سابق وزیراعظم عمران خان چونکہ پہلے سے ہی سزا کاٹ رہے ہیں، لہذا سکیورٹی خدشات کے باعث بھی امکان یہی ہے کہ ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی کارروائی جیل میں ہی ہو گی اور اس حوالے سے قانون بھی موجود ہے۔‘

گذشتہ برس اکتوبر میں وفاقی کابینہ نے سائفر کے معاملے پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

مقدمے کے اندراج سے قبل سائفر کے معاملے پر تشکیل دی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے عمران خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری، فیصل واوڈا، سابق سیکرٹری خارجہ اسد مجید اور سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اپنا بیان کروا چکے ہیں۔

جے آئی ٹی نے مقدمے کے اندراج کی سفارش کی تھی جس پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اس مقدمے کا اندراج ہوا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان