پہاڑی علاقوں میں سڑکیں اور پل بنائے جائیں یا ڈولیاں ہی کافی ہیں؟

سوشل میڈیا صارفین پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں مہنگی سڑکیں اور پل تعمیر کرنے کے بجائے چیئر لفٹوں کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے دور افتادہ پہاڑی علاقے الائی میں کئی گھنٹوں تک ہوا میں معلق رہنے والی چیئر لفٹ کو جس کمرے سے چلایا (یا آپریٹ) کیا جاتا تھا اب وہاں لگا تالا بتا رہا ہے کہ اس کیبل کار کو چلانے پر پابندی ہے، تاہم یہ اس علاقے کے ہزاروں باسیوں کے لیے لائف لائن ہے، جو اب ٹوٹ گئی ہے۔

ضلع بٹگرام کے علاقے الائی میں منگل کو چیئر لفٹ (جسے مقامی زبان میں ڈولی یا زانگو کہا جاتا ہے) کی رسی ٹوٹنے سے سات طلبہ سمیت آٹھ افراد کئی گھنٹوں تک ہوا میں معلق رہے، جنہیں بعد ازاں پاکستان آرمی اور مقامی افراد نے ایک طویل اور مشکل ریسکیو آپریشن کے بعد بحفاظت نیچے اتارا تھا۔

بٹگرام سے تعلق رکھنے والے چیئر لفٹ کے مالک کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

مقامی پولیس کے ڈی ایس پی نذیر خان کے مطابق ڈولی کے مالک کو ایک ماہ قبل چیئر لفٹ کا این او سی داخل کرانے کا نوٹس جاری ہوا تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ 

این او سی

نذیر خان کے مطابق این او سی جاری کرنا یا این او سی چیک کرنا پولیس کی ذمہ داری نہیں ہے لیکن انہوں نے لوگوں کی حفاظت کی خاطر ایسا کیا تھا اور علاقے میں موجود تمام چیئر لفٹس کو نوٹسز جاری کیے تھے کہ وہ این او سیز پولیس کے پاس جمع کروائیں۔

چیئر لفٹس کو نو ابجکشن سرٹیفیکیٹ (این او سی) جاری کرنا ضلعی انتظامیہ کے دائرہ اختیار میں ہے، تاہم گذشتہ روز صوبائی حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ چیئر لفٹس کے لیے این او سی لینا اب لازمی ہو گا۔

بیان میں بتایا گیا ہے کہ تمام اضلاع کے ضلعی انتظامیہ اس حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ ایک ہفتے کے اندر اندر صوبائی حکومت کو جمع کریں۔

اس حوالے سے بٹگرام کے اسسٹنٹ کمشنر محمد جواد سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ 

بٹگرام کے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر (ریلیف) سید حماد اکبر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چیئر لفٹس کو این او سی جاری کرنے کے بارے میں انہیں کوئی علم نہیں ہے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے جاری بیان سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ پہلے چیئر لفٹس کے لیے این او سی لینا لازمی نہیں تھا، لیکن اب اس کو لازمی بنا دیا گیا ہے۔ تاہم کسی سیاحتی مقام پر زِپ لائن، یا چیئر لفٹ لگانے کے لیے این او سی جاری کرنے کا اختیار خیبر پختونخوا کے محکمہ سیاحت کے پاس ہوتا ہے۔ 

سیاحتی مقام پر ان پروڈکٹس کے استعمال کے لیے ایک سال کے لیے این او سی جاری کیا جاتا ہے اور ایک سال کے بعد اس کی تجدید کرانا ضروری ہوتا ہے۔

سیاحتی مقامات کے علاوہ کسی دوسری جگہ ہر چیئر لفٹ یا ڈولی لگانے کے لیے باقاعدہ کوئی قانون موجود نہیں ہے لیکن این او سی جاری کرنے کی مجاز ضلعی انتظامیہ ہے۔

چیئر لفٹ پہاڑی ضلع الائی کے (جسے ابھی تک ضلع بٹگرام کی انتظامیہ چلا رہی ہے) علاقے پاشتو کے دو دیہاتوں جھانگڑی اور بٹنگی کے درمیان آمدورفت کی غرض سے تقریباً آٹھ سال قبل لگائی گئی تھی۔

جھانگڑی گاؤں کے رہائشی 50 سالہ محمد عابد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ ڈولی صرف عام آمدورفت کے لیے نہیں بلکہ بٹنگی میں موجود ہسپتال جانے کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا: ’ڈولی میں مریض کو تین منٹ میں بٹنگی گاؤں پہنچا دیا جاتا تھا جبکہ ڈولی کے بغیر مریض کو چارپائی پر ڈال کر پیدل جانے کی صورت میں دو گھنٹے لگتے ہیں، جو مریض کے علاوہ رشتہ داروں کے لیے بھی مشکل ہے۔‘ 

محمد عابد کے مطابق: ’ہمارے گاؤں میں ایک ہی مڈل سکول ہے، جبکہ ہائی سکول بٹنگی میں ہے اور ہمارے گاؤں کے بچے اسی ڈولی کو استعمال کر کے ہائی سکول جاتے تھے۔‘

بٹنگی پاشتو پبلک سکول میں پڑھنے والے دسویں جماعت کے ایک طالب علم اختر محمد نے روئٹرز کو بتایا کہ بعض اوقات خراب موسم کی وجہ سے طلبہ سکول نہیں جا سکتے۔

’ہم چیئر لفٹ کے ذریعے 15 منٹ میں سکول پہنچ سکتے تھے لیکن اب ہمارے لیے یہ نظام بند ہو چکا ہے۔ لہٰذا اب ہمیں سکول جانے میں ڈیڑھ گھنٹے لگیں گے۔ ایک پل ہوا کرتا تھا جو ٹوٹ گیا ہے۔‘ 

بٹنگی ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر علی اصغر خان نے وضاحت کی کہ علاقے میں سکول چھوڑنے والے طلبہ کی بڑھتی ہوئی شرح کا براہ راست تعلق طلبہ کے پیدل چلنے والے فاصلے سے ہے۔ ’طویل سفر سے ان کی مجموعی کارکردگی پر بھی اثر پڑتا ہے کیونکہ وہ مستقل طور پر تھکے ہوئے ہوتے ہیں۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے کی پیچیدگی سے آگاہ ہیں اور حل تلاش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ضلع بٹگرام کے ایک سینیئر ریلیف افسر حماد حیدر نے کہا کہ وہ ریموٹ لرننگ اور چھوٹے پیمانے کے سکولوں پر بھی غور کر رہے ہیں تاکہ طلبہ تعلیم تک باآسانی رسائی حاصل کر سکیں۔

سکول کے علاوہ ان دونوں گاؤں کے ملانے کے لیے کوئی پل یا سڑک موجود نہیں ہے، بلکہ صرف ایک پیدل راستہ ہے جس کو طے کرنے میں دو گھنٹے لگتے ہیں۔ 

بٹنگی گاؤں ضلع الائی کے پہاڑی علاقے میں واقع ہے، جہاں پہنچنے کے لیے الائی کے مرکزی بازار بنہ سے فور بائی فور گاڑی میں تقریباً دو گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ 

بنہ سے چیئر لفٹ کے مقام تک سڑک بالکل خراب حالت میں ہے اور جگہ جگہ بھاری پتھر ہیں، اور اس راستے پر فور بائی فور گاڑی کے ذریعے بھی سفر کرنا مشکل ہے۔ 

بٹنگی اور جھانگڑی کے رہائشی روز مرہ ضروریات کی اشیا بنہ کے بازار سے ہی خریدتے ہیں اور اس سفر کے لیے یہ لوگ اسی چیئر لفٹ کا استعمال کرتے ہیں۔   

ڈولی میں سفر پہاڑی علاقوں کے لوگوں کے لیے معمول 

منگل کے واقعے کے بعد سے ڈولی کا ذکر قومی و بین الاقوامی میڈیا پر خبروں میں ہو رہا ہے، خیبر پختونخوا اور پاکستان کے دوسرے پہاڑی علاقوں میں ڈولی لگانا اور اس میں سفر کرنا ایک معمول ہے۔

پاکستان کے شمالی علاقوں میں ایسی سینکڑوں ڈولیاں یا چیئر لفٹس موجود ہیں، جنہیں وہاں کے رہائشی روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ بعض مقامات پر تو محض ایک رسی سے لٹک کر مقامی لوگ خطرناک سفر کرتے ہیں۔

ڈولی کو ضروری سفر، سودا سلف لانے اور ہسپتال یا سکول جانے کے لیے بطور سفری ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا سب سے بڑا فائدہ زمینی راستے، جو عموماً طویل اور دشوار ہوتے ہیں، کی نسبت وقت کی بچت ہے۔

ان علاقوں میں استعمال ہونے والی ڈولیاں بہت جدید طرز کی نہیں ہوتیں، بلکہ محض ایک کیبن بنا کر اس کے دونوں اطراف کو آہنی رسیوں سے باندھ دیا جاتا ہے۔ ڈولی کو چلانے کے لیے جنریٹر یا گاڑیوں کے پرانے انجن استعمال کیے جاتے ہیں۔ 

پہاڑی علاقوں میں ہاتھ سے چلنے والی ڈولیاں بھی موجود ہیں، جس کو حرکت دینے کے لیے ایک بڑے پہیے کو گھمایا جاتا ہے۔

ڈولی کاروباری بنیاد پر چلائی جاتی ہیں اور ان میں سفر کرنے والے کرایہ ادا کرتے ہیں، جو عام طور پر 10 سے 50 روپے تک ہوتا ہے۔ 

ضلع الائی میں کس کی حکومت رہی ہے؟ 

ضلع الائی کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ 2018  کے عام انتخابات میں اس علاقے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی اے) کے انجینیئر زبیر خان منتخب ہوئے تھے جبکہ اس سے پہلے تین بار جمیعت علمائے اسلام ف کے شاہ حسین خان رکن صوبائی اسمبلی تھے۔ 

مقامی افراد کے مطابق حکمرانوں نے ابھی تک بنہ بازار سے بٹنگی اور اوپر علاقوں کو سڑکوں کا مسئلہ حل نہیں کیا اور نہ یہاں پر صحت کے سہولیات فراہم کیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رحیم اللہ بٹنگی کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بٹنگی سے مریض کو چارپائی پر ڈال کر پیدل یا فور بائی فور گاڑی کے ذریعے بنہ بازار میں کیٹیگری ڈی ہسپتال تک پہنچایا جاتا ہے۔ 

سڑکوں کی یہ حالت تھی کہ ہم نے بنہ بازار سے بٹنگی گاؤں تک 20 کلومیٹر کا راستہ تقریباً دو گھنٹوں میں طے کیا، جبکہ الائی کے مرکزی بازار تک جانے میں سڑک کی یہ حالت تھی کہ ایک وقت میں ہم 10 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ سفر نہیں کر پا رہے تھے۔ 

سیاحت؟ 

دلکش سبز پہاڑوں کے درمیان واقع الائی مقامی اور غیرملکی سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام بن سکتا ہے تاہم حکومتی سطح پر باہر کے لوگوں کو یہاں آنے کی ترغیب دینے کی غرض سے اقدامات نظر نہیں آتے۔ 

2018 میں حکومت میں آنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لیے ویزا پالیسی میں نرمی اور خصوصی ویڈیوز جاری کیں لیکن مقامی آبادی کی شکایت رہی کہ زیادہ مشکل کام یعنی علاقوں تک رسائی بہتر بنانے پر اتنی توجہ اور وسائل خرچ نہیں کیے گئے جتنے کے ضرورت تھی۔

الائی کے رہائشی محمد فیض نے انڈپیڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہاں ایسے بزرگ افراد بھی موجود ہے، جنہوں نے اپنی عمر میں پشاور بھی نہیں دیکھا ہے کیونکہ ایک تو سڑکوں کی یہ حالت ہے کہ یہاں سے کسی ضروری کام کے بغیر کوئی گاؤں سے باہر نہیں نکلتا۔

انہوں نے بتایا: ’مقامی افراد بھی یہاں سفر کر کے تھک جاتے ہیں تو شہری علاقے سے آئے سیاح یہاں کیسے سفر اور سیاحت سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ یہاں منٹوں کا راستہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے کیونکہ سڑکوں کی حالت بری ہے۔‘ 

کم آبادی والے علاقوں میں پل اور سڑک بنانا عقل مندی ہے؟

منگل کے واقعے کے بعد سے سوشل میڈیا پر پاکستان کے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں سڑکیں اور پل بنانے کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔ تاہم جہاں ان دور افتادہ علاقوں میں انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے حامی موجود ہیں تو ایسے لوگ بھی ہیں جو ایسے منصوبوں کر فضول خرچی سے تعبیر کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر اکثر صارفین کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے کہ ان علاقوں میں روڈ انفراسٹرکچر کو ٹھیک کرنے کی کیا ضرورت ہے اور ڈولی کی جگہ پل کیوں بنایا جانا چاہیے۔

بعض صارفین کا کہنا ہے کہ ایسی جگہوں پر ڈولی کا استعمال کم خرچ ہے، جبکہ پل یا سڑک بنانے کے لیے اربوں روپے درکار ہوتے ہیں۔

ایسے سوشل میڈیا صارفین کے خیال میں حکومت کو چیئر لفٹس کی نگرانی ضرور کرنا چاہیے تاکہ حادثات کم ہوں اور انسانی جان و مال کو نقصان کے امکانات کو کم کیا جا سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان