بجلی کے بل چھپر پھاڑ کر ہر گھر میں داخل ہو چکے ہیں روپے کی تیزی سے ہونے والی بے قدری پر میڈیا الگ سے ماتم کدہ بنا ہوا ہے۔ مملکت خداداد میں مڈل کلاس کی دھجیاں اڑ چکی ہیں اس ملک میں یا اب انتہائی امیر رہ گئے ہیں یا انتہائی غریب۔
میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جس کی تنخواہ 50 ہزار ہے اور دو مہینے مسلسل اس کا بل تنخواہ سے زیادہ آیا اور ان دو مہینوں میں ہی اسے سٹروک بھی ہو چکا ہے۔
سٹروک ہو بھی کیوں نہیں دو تین بچوں کا باپ بجلی کا بل ادا کرے مکان کا کرایہ یا بچوں کو کوالٹی تعلیم دے؟ یہ اب تقریباً ہر گھر کا قصہ بن چکا ہے جہاں جائیں یہی دہائی۔
اور اس نہج پر ہم پہلی دفعہ نہیں پہنچے، کٹھن وقت گزر ہی جاتا ہے لیکن جب آپ کو یہ پتہ ہو کہ ابھی تو مزید سخت وقت آنا ہے تو زندگی گزارنا واقعی اجیرن بن جاتی ہے۔ ہر گریجویٹ بچہ کینیڈا اور امریکہ جانا چاہتا ہے، ہمارے یہاں تیزی سے برین ڈرین کا آغاز ہو چکا ہے۔
بالفاظ دیگر آپ کا نوجوان آپ کا روشن مستقبل وہ آپ کو چھوڑ کر جا رہا ہے۔ اور کیوں نہ جائے کیا ہم نے ان کے لیے یہ ملک رہنے کے قابل چھوڑا ہے؟
اس وقت اصل مسلہ یہ نہیں حالات بہت زیادہ خراب ہو چکے ہیں اور مزید خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر حالات کی خرابی کا صرف رونا ہی رو رہے ہیں۔ انرجی اور پاور سیکٹر کے سٹرکچرل اور مستقل مسائل پر کوئی بات نہیں کر رہا، کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ دو ارب ڈالر سالانہ ہم بیمار اداروں کو کیوں دے رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک ملک جسے آئی ایم ایف نے دو ارب ڈالرز کے لیے ناکوں چنے چبوا دیے وہ اتنے ہی پیسے پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے اداروں پر سالہا سال سے لٹا رہا ہے۔
کیوں نہیں ان اداروں سے جان چڑھائی جاتی؟ آج کے دور میں انڈیا چاند پر لینڈ کر گیا لیکن ہم اب تک بجلی چوری پر قابو نہ پا سکے۔ مسلئہ ہماری ترجیحات کا ہے ہمارا گھر بار ٹھیک رہے باقی ملک بھاڑ میں جائے اسی فلسفے پر پاکستانی کی اشرافیہ عمل پیرا ہے۔
سینے پر پاکستان کے جھنڈے والا بیج لگا کر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سے بڑا محبت وطن کوئی نہیں لیکن حقیقت یہ ہے بہت ہی کم ایسے لوگ آپ کو ملیں جنہیں اپنے گھر اور خود سے زیادہ اس ملک اور اس میں بسنے والے پسے ہوئے طبقات کی پروا ہو۔
ہم سب اپنی ذات اور ذاتی مفادات کے قیدی بن چکے ہیں۔ یہاں سیاست دانوں جرنیلوں ججوں یا بیوروکریٹس کو سنگل آؤٹ کر کے الزام نہیں دینا چاہتا، ہم سب کو۔ سب کو ملک کی کوئی پروا نہیں، پروا ہے تو بس یہ کہ بس بچوں کی بیرون ملک یونیورسٹیوں کی فیس کما لی جائے، ریٹائرمنٹ کے بعد کسی ملک میں ایک فلیٹ خرید لیا جائے، اسلام آباد میں ایک فارم ہاؤس ہو، وغیرہ وغیرہ ملکی معیشت کا جنازہ نکلتا رہے مجھے کیا غرض۔
لیکن سینے پر پاکستان کا بیج لگا کا قومی ترانے کے احترام میں کھڑی ہو کر ہم یہ اعتبار ضرور دلاتے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک سے کتنی محبت ہے۔
یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ موجودہ حالات سے پاکستان کو نکالنا نہ تو نگران حکومت کے بس کی بات ہے، نہ کسی ایک سیاسی جماعت کے۔ سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا، چاہے وہ خود سے بیٹھیں یا ڈنڈے کے زور پر۔ حل یہی ہے کہ ملک کے چار پانچ بڑے مسائل پر بات ہو اور کسی ایک نتیجے پر پہنچ کر اسے باقاعدہ قومی پالیسی بنائی جائے۔
اب ہمارے پاس مزید وقت اور مواقع نہیں رہ گئے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو نہ اس ملک کی معیشت کی مزید تباہی رکنی ہے اور نہ برین ڈرین رک پائے گا، ہم آج جہاں کھڑے ہیں چھ مہینے بعد اس سے بدتر حالت میں ہوں گے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔