سعودی نوجوان ریاست کو ’ویڈیو گیم ڈیولپرز کی جنت‘ بنانے کے لیے پرجوش

سعودی نوجوانوں کو بڑی ویڈیو گیمز بنانے پر راغب کرنے کے لیے ریاض میں ’گیمرز ایٹ‘ فیسٹیول جاری ہے۔

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ویڈیو گیمز کے عجائب گھر میں نوجوانوں کا رش ہے۔ اس عجائب گھر میں ابتدائی پیک مین سے لے کر پلے سٹیشن فائیو نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔

اس منصوبے کا مقصد سعودی نوجوانوں کو اپنی مقبول ویڈیو گیمز تیار کرنے کی ترغیب دینا ہے۔

گذشتہ نصف صدی کے کنسولز اور آرکیڈ مشینوں کی نمائش ای سپورٹس ٹورنامنٹس کے آٹھ ہفتوں پر مشتمل فیسٹیول ’گیمرز ایٹ‘ کا حصہ ہے، جس میں مجموعی طور پر ساڑھے چار کروڑ ڈالر کے انعامات تقسیم کیے جائیں گے۔

سعودی عرب کی گیمنگ اور ای سپورٹس میں انتہائی دلچسپی ڈھکی چھپی نہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ 38 سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ’کال آف ڈیوٹی‘ نامی ویڈیو گیم کے پرجوش کھلاڑی ہیں۔

انہوں نے گذشتہ سال سیوی گیمز گروپ کے لیے 38 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی حکمت عملی کا اعلان بھی کیا تھا۔

سعودی عرب کی قومی گیمنگ اور ای سپورٹس کی حکمت عملی میں زیادہ توجہ مقامی سطح پر گیمز کی تیاری پر ہے۔ اس حکمت عملی کی سرکاری دستاویز میں مملکت کو ’گیم ڈیولپرز کی جنت‘ میں تبدیل کرنے کا عہد کیا گیا ہے، جس سے سعودی اور عربی ثقافت کو فروغ دینے کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

اور یہیں سے اس عجائب گھر اور اس سے ملحقہ گیم لیبز کا کردار سامنے آتا ہے۔ گیمرز ایٹ کے دوران تقریباً تین ہزار لوگ، جن میں اکثریت سعودی شہریوں کی ہے، کوڈنگ اور اینیمیشن جیسی مہارتوں میں کریش کورسز کے لیے جمع ہوئے ہیں۔

گیم ڈیولپر محمد الفقیہ نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ماضی میں عرب صرف گیمز خریدتے تھے، تیار نہیں کرتے تھے۔ اب مقامی رسم و رواج اور روایات کے مطابق کھیلوں کو تیار کرنے، اپنے آئیڈیاز کی تیاری اور انہیں حقیقت بنانے کا موقع ہے۔‘

سعودی عرب، جس کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، ویڈیو گیم مارکیٹ کے لیے موزوں دکھائی دیتا ہے۔

سعودی ای سپورٹس فیڈریشن کے چیف ای سپورٹس آفیسر فیصل بن ہومران نے اعتراف کیا کہ ملک میں اب تک کسی نے ایسی بڑی اور ہٹ ویڈیو گیم نہیں بنائی جو سعودی ثقافت کی بھی نمائندگی کرے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت 25 ہزار سعودی اور غیر ملکی ڈیولپرز اس چیلنج سے نبرد آزما ہیں۔ ’باہر سے آنے والی مہارت اور علم کی منتقلی کے ساتھ، ہم کچھ گیمز کو دیکھیں گے جو واقعی بین الاقوامی سطح پر متعارف کروائی جا سکتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ حوصلہ افزائی کے ایک ذریعے کا تعلق سعودی کرداروں کے ساتھ ہے جو پہلے ہی عالمی فرنچائزز میں دکھائے دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیکن فائٹنگ گیمز میں شاہین یا سٹریٹ فائٹر میں راشد۔

راشد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق مشرق وسطیٰ کے کسی نامعلوم ملک، ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات یا سعودی عرب سے ہے۔

سعودی عرب میں تیار کردہ کچھ گیمز پہلے ہی سعودی شائقین کی توجہ کا مرکز بن چکی ہیں، جن میں راکٹ لیگ کے شوقین خالد الغیث بھی شامل ہیں، جنہوں نے موسم گرما کی تعطیلات کے دوران گیمرز ایٹ لیبارٹریز میں کوڈنگ سیکھی۔

اس 14 سالہ کھلاڑی کا کہنا تھا کہ ان کے پاس سعودی عرب میں ’خشیم‘ یا ’نوز‘ نامی گیمز کی خاص طور پر اچھی یادیں ہیں، جن میں ایک ایسے کردار کے بارے میں بتایا گیا جو اپنی یادداشت کھو چکا ہے اور اسے واپس حاصل کرنے کے لیے اسے اپنی سونگھنے کی حس پر مبنی کئی چیلنجز کو پورا کرنا پڑتا ہے۔

الغیث کے مطابق: ’ہر وہ گیم جو کوئی سعودی شہری تیار کرتا ہے، میں اسے ہمیشہ کھیلتا ہوں اور واقعی اس سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ واہ یہ ایک سعودی کا کام ہے اور مجھے اس پر بہت فخر ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل