موسیقار راہل دیو برمن پر ایک الزام یہ بھی لگتا رہا ہے کہ وہ بدیسی دھنوں اور گانوں پر بڑی مہارت سے ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں۔
سچن دیو برمن کے صاحبزادے خود اعتراف کر چکے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ اگر کسی موسیقار کو کوئی دھن پسند آ جائے تو وہ اس میں تھوڑی بہت ترمیم کرکے اسے اپنے کام کا حصہ بنائے۔ یہ آر ڈی برمن کی اپنی سوچ تھی جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ جہاں آرڈی برمن نے کئی مدھر اور رسیلے نغموں کا گلد ستہ سجایا وہیں ان کے کئی گیتوں کی دھنیں انگریزی گیتوں کی کاپی قرار دی گئیں۔
ہدایت کار رمیش سپی نے جب 1985میں فلم ’ساگر‘ بنانے کی تیاری کی تو حسب روایت موسیقار کے لیے انہوں نے راہل دیو برمن کا ہی انتخاب کیا جو اس سے قبل رمیش سپی کی سیتا اور گیتا، شعلے، شان اور شکتی جیسی سپر ہٹ فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے تھے۔
’ساگر‘ اس اعتبار سے بھی اہمیت کی حامل تھی کیونکہ ’بوبی‘ کے ذریعے فلمی دنیا میں اپنی منفرد شناخت بنانے والے ہیرو اور ہیروئن رشی کپور اور ڈمپل کپاڈیہ کم و بیش 12سال بعد پھر سے پردہ سیمیں کی زینت بننے والے تھے۔ ادھر آر ڈی برمن کی دھنوں پر نغمہ نگاری جاوید اختر کے ذمے تھی۔
ساگر کنارے دل یہ پکارے کے لیے تجربہ
فلم ’ساگر‘ کے گانے ’ساگر کنارے دل یہ پکارے‘ کے لیے آر ڈی برمن نے ایک تجربہ کرنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے اس گیت کو تین پرانے گیتوں کی دھنوں سے متاثر ہو کر تیار کرنے کے لیے کمر کس لی۔ آر ڈی برمن نے اپنے والد سچن دیو برمن کی 1951 میں آئی فلم ’نوجوان‘ کے گیت ’ ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں، رت ہے جوان، ان کو یہاں کیسے بلائیں،‘ کی لے اور طرز کو استعمال کرنے کا سوچ لیا۔
یہ بھی حسین اتفاق ہے کہ ایس ڈی برمن کے اس گیت کی دھن پر آنے والے برسوں میں کئی اور شاہکار تخلیق کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایس ڈی برمن نے ایک ہوٹل کی لابی میں ایک موسیقار کو پیانو پر اس گیت کی دھن بجاتے ہوئے سنا تھا اور یہ لے انہیں ایسی بھائی کہ انہوں نے ’ٹھنڈی ہوائیں‘ بنا لیا۔
تین سال بعد یہ دھن موسیقار روشن کو اس قدر پسند آئی کہ انہوں نے فلم ’چاندنی چوک‘ میں ’تیرا دل کہاں ہے‘ میں پیش کر دیا۔ قصہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ 1964 کی فلم ’آپ کی پرچھائیاں‘ کا گیت ’یہی ہے تمنا ترے در کے سامنے‘ کی دھن سے متاثر ہے جسے موسیقار مدن موہن نے تیار کیا۔ موسیقار روشن کے ذہن سے یہ طرز نکل نہ پائی اور انہوں نے ایک بار پھر 1966 میں نمائش پذیر ہونے والی فلم ’ممتا‘ کے گانے ’رہیں نہ رہیں ہم مہکا کریں گے بن کے کلی، بن کے صبا، باغ وفا میں‘ کے ذریعے اسے دہرایا۔
تین موسیقار دھن ایک
یہ بھی دلچسپی سے کم نہیں کہ آر ڈی برمن نے ماضی کے جن تین گانوں سے متاثر ہو کر ’ساگر کنارے دل یہ پکارے‘ کو بنانے کا ارادہ کیا، اس کے ابتدائی گیت کے موسیقار ان کے والد تھے جن کے بعد روشن اور مدن موہن نے کم و بیش ایک ہی دھن پر مختصر وقفے کے ساتھ گیت بنائے تھے۔
آر ڈی برمن کی متواتر کوششیں
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ آر ڈی برمن کے ذہن میں ان پرانے گانوں کی دھنیں چپک کر رہ گئی تھیں۔ جب وہ والد سے الگ ہو کر گیت ترتیب دینے کے قابل ہوئے تو انہوں نے 1976 میں فلم ’بنڈل باز‘ میں لتا منگیشکر اور محمد رفیع کی آواز میں انہی گانوں سے متاثر ہو کر ’نغمہ ہمارا گائے گا یہ زمانہ‘ پیش کیا لیکن یہ گیت مقبولیت نہ پا سکا۔
آر ڈی برمن نے اس ناکامی کے باوجود ہمت نہ ہاری اور پھر 1981میں فلم ’نرم گرم‘ میں ’اپنی پسندیدہ طرز اور دھن پر ’ہمیں راستوں کی ضرورت نہیں ہے‘ پیش کیا، لیکن یہ گیت بھی شہرت سے خاصا دور رہا۔
راہل دیو برمن کی سوئی ان پرانے گیتوں کی دھن پر ایسی اٹکی تھی انہوں نے ’ساگر‘ میں پھر سے اسے استعمال کیا جب انہوں نے ’ساگر کنارے دل یہ پکارے‘ تیار کیا تو اس بار وہ زیادہ پرجوش تھے۔ اس مدھر اور رسیلے گانے کی نغمہ سرائی لتا منگیشکر اور کشور کمار نے کی تھی جبکہ جاوید اختر کی شاعری کی وجہ سے آر ڈی برمن کو یقین تھا کہ یہ گانا کھڑکی توڑ کامیابی حاصل کرے گا۔
کچھ ناقدین کا ماننا ہے کہ 1983 میں ’اگر تم نہ ہوتے‘ کی دھن بھی کم و بیش آر ڈی برمن نے اپنے پسندیدہ پرانے گیتوں پر ہی بنائی تھی۔
آر ڈی برمن کی محنت رنگ لائی
ہدایت کار رمیش سپی کی ’ساگر‘ نے کامیابی اور کامرانی کی نئی مثالیں قائم کیں۔ وہیں فلم کے گانوں نے ہر ایک کو مجبور کیا کہ وہ انہیں بار بار گنگنائیں۔ بالخصوص ’ساگر کنارے دل یہ پکارے‘ تو عوامی مقبولیت حاصل کر گیا۔
1986 میں فلم فیئرایوارڈز ہوئے تو اسی گیت پر آر ڈی برمن، کشور کمار اور جاوید اختر کی نامزدگی ہوئی۔ دل کی گہرائیوں سے اس گیت کو گانے پر کشور کمار کو بہترین گلوکار کا فلم فیئرایوارڈ ملا اور یہی ان کی زندگی کا آخری فلم فیئر ایوارڈ ثابت ہوا۔ دیکھا جائے تو یہ گیت آج بھی سب کے ذہنوں میں نقش ہے۔