چترال: سکیورٹی چیک پوسٹوں پر حملے کے بعد اب حالات کیسے ہیں؟

ڈپٹی کمشنر لوئر چترال محمد علی کے مطابق ’علاقے میں عوام کی سکیورٹی اور سیاحوں کی تحفظ کے لیے اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔‘

27 جنوری 2019، پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر موجود غلام خان ٹرمینل پر تعینات پاکستانی فوجی سکیورٹی ڈیوٹی پر تعینات(اے ایف پی/فاروق نعیم)

صوبہ خیبرپختونخوا کا شمالی ضلع چترال گذشتہ کچھ دنوں سے خبروں میں ہے جس کی وجہ بدھ کی صبح سے یہاں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات کے بعد فوجی آپریشن ہے۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بدھ کو ایک بیان میں بتایا کہ شدت پسندوں نے چترال کے علاقے کیلاش میں دو چیک پوسٹوں پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا۔

بیان کے مطابق ’افغان صوبہ کنڑ اور آس پاس کے علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی کی پہلے سے افغانستان کی عبوری حکومت کو آگاہ کردیا گیا تھا اور اسی وجہ سے پاکستان فوج کی چیک پوسٹس پہلے سے الرٹ تھیں۔‘

آئی ایس پی آر کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں 12 شدت پسند مارے گئے جبکہ سکیورٹی فورسز کے چار اہلکار جان سے گئے۔

جمعرات کو ڈپٹی کمشنر لوئر چترال محمد علی نے بتایا کہ ’آپریشن کے دوران چترال بھر میں ایلیٹ فورس تعینات کی گئی تھی لیکن حالات قابو میں تھے۔‘

جمعرات کو ہی ٹی ٹی پی نے ایک پریس ریلیز میں چترال کے پہاڑی علاقوں میں مارٹر گولے پھینکنے کا دعویٰ کیا۔

ڈپٹی کمشنر محمد علی نے بتایا کہ افغان صوبے نورستان سے چترال کی سرحد کے ملحقہ علاقے آرسون میں تین مارٹر گولے فائر کیے گئے تاہم کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔

انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ اب حالات قابو میں ہیں اور تعلیمی ادارے، مارکیٹیں اور دیگر کاروباری زندگی معمول کے مطابق ہے جبکہ شدت پسندوں کی کارروائی کو سکیورٹی فورسز نے ناکام بنا دیا۔

کیلاش اور چترال معروف سیاحتی مقامات ہیں۔ اسی حوالے سے محمد علی کہا کہنا تھا کہ ’راستے کھلے ہیں اور سیاح بلا کسی خوف چترال آ سکتے ہیں جبکہ ضلعے میں عوام کی سکیورٹی اور سیاحوں کی تحفظ کے لیے اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔‘

ہدایت الرحمان کا تعلق لوئر چترال سے ہے اور وادی کیلاش میں ان کے رشتہ دار رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’حالات بالکل معمول کے مطابق ہیں اور کاروباری زندگی بالکل متاثر نہیں ہے۔‘

انہوں نے کا کہ عسکریت پسندی کے واقعات آبادی سے تقریباً 13 کلو میٹر دور سرحد کے پاس ہوئے جہاں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’ماضی میں بھی ہم نے سرحد پار سے ایسے واقعات دیکھے لیکن ان واقعات سے معمولات زندگی متاثر نہیں ہوتے۔‘

ہدایت الرحمان کے مطابق ’بدھ کو پیش آنے والے واقعات کیلاش وادی میں اور دروش تحصیل میں سامنے آئے تھے اور یہ پاکستان افغان سرحد کے بالکل قریب پہاڑی علاقوں میں پیش آئے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار قرات العین شیرازی کے مطابق پاکستانی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی میں بریفنگ کے دوران نگران وزیر خارجہ جلیل عباس نے بتایا کہ ’پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر افغانستان کی حکومت سے بات چیت چل رہی ہے جبکہ چترال واقعے کا افغان حکومت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔‘

’چترال کا واقعہ پاکستان کا اندرونی معاملہ‘

افغان حکومت کے نگران وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چترال واقعہ پاکستان کا اندورنی مسئلہ ہے اور پاکستانی حکام اندورنی سکیورٹی کو خود دیکھیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم افغانستان کی زمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے اور چترال واقعے کو افغانستان سے جوڑنا بے بنیاد ہے اور ہم اس کو مسترد کرتے ہیں۔‘

چترال کا محل و وقوع

چترال خیبر پختونخوا کا دور افتادہ اور پسماندہ علاقہ ہے جبکہ پاکستان میں سب سے زیادہ گلیشئیر بھی اسی ضلعے میں واقع ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چترال کی سرحد افغانستان کے صوبہ کنڑ، نورستان ار بدخشاں سے ملتی ہے اور مورخین کے مطابق ایک زمانے میں بدخشاں کے زیادہ تر علاقے چترال کی اس وقت کی شاہی ریاست کے کنٹرول میں تھے۔

مشرق کی جانب چترال کی سرحد گلگت بلتستان اور جنوب میں اس کی سرحد ضلع دیر اور سوات سے جا ملتی ہے۔

چترال کا بدخشاں کے ساتھ ملتی سرحدی گزرگاہ کو کو دورہ پاس کہتے ہیں جو تقریباً 14 ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے جبکہ چترال کا کنڑ کے ساتھ جڑی بارڈر کو ارندو پاس کہا جاتا ہے جو تقریباً 52 کلومیٹر طویل ہے اور ان دونوں گزگاہوں کو کچھ عرصہ پہلے افغانستان کے ساتھ تجارت کے لیے کھلنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔

 ٹی ٹی پی کے حملے کہاں ہوئے؟

اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر چترال محمد علی خان نے بتایا ’حملے افغانستان کے صوبے نورستان سے کیے گئے جو سرحد کے قریب آنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘

’اگلے روز تین مارٹر گولے بھی صوبہ نورستان سے داغے گئے جس میں کسی قسم کا جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا۔‘

’چترال نے کبھی شدت پسندی کو قبول نہیں کی‘

چترال مجموعی طور پر خیبرپختونخوا میں شدت پسندی کے حوالے سے پرامن ضلع سمجھا جاتا ہے۔

امریکہ کے سینٹر برائے سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں شائع ایک مقالے کے مطابق 1980 کی دہائی میں ’افغان جہاد‘ کے دوران سابق سویت یونین کے خلاف وادی چترال کے علاقے گرم چشمہ سے اسلحہ سپلائی کی جاتا تھا۔

اسی مقالے کے مطابق اس کے باوجود بعد میں چترال پر اس ’افغان جہاد‘ کا اثر نہیں رہا اور مجموعی طور چترال کے لوگ امن پسند پائے گئے البتہ بعض مواقع پر فرقہ ورانہ واقعات ضرور دیکھے گئے۔

چترال میں شدت پسندی 2007 کے بعد تھوڑی بہت پروان چھڑی تھی۔ یہاں دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ 2011 میں پیش آیا جب ارندو پاس کے قریب ارنڈو تحصیل میں چیک پوسٹ پر تعینات 32 سکیورٹی اہلکاروں کی اموات ہوئی تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان