منگل 11 ستمبر 2001 کا آغاز ایک عام دن کی طرح ہوا۔ نیو یارک اور واشنگٹن ڈی سی دونوں شہروں میں موسم صاف تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی۔
طلبہ سکول اور ملازمین دفتر جا چکے تھے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں تقریبا 17 ہزار لوگ کام پر پہنچے۔
دن ختم ہونے تک دنیا بدل چکی تھی۔ امریکہ کو اب تک کے بدترین دہشت گرد حملے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تقریبا تین ہزار افراد کی جان گئی، تاریخ اچانک بالکل مختلف اور زیادہ پرتشدد راستے پر چل نکلی۔
اس دن کے واقعات کیسے پیش آئے۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر
صبح آٹھ بج کر 46 منٹ پر امریکی فضائی کمپنی کا ایک طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاور کے ساتھ ٹکرا گیا۔ اس طیارے میں 76 مسافر اور عملے کے 11 ارکان سوار تھے۔ یہ تمام لوگ فوری طور پر جان سے گئے۔ اگلے چند منٹ میں بعض لوگوں کا ماننا تھا کہ حادثہ ہوا ہے۔
صبح نو بج کر تین منٹ پر دوسرا طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جنوبی ٹاور کے ساتھ ٹکرا گیا۔ اس مرتبہ واضح تھا کہ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک دہشت گردانہ حملہ ہو رہا تھا جو القاعدہ کے ان شدت پسندوں کی کارروائی تھی جنہوں نے کئی طیارے ہائی جیک کیے اور اب انہیں میزائلوں کی طرح استعمال کر رہے تھے۔
طیارے ٹکرانے کے بعد ٹوئن ٹاورز میں لگنے والی آگ، جو طیاروں کے جلتے ہوئے جیٹ ایندھن کی وجہ سے بدتر ہو گئی تھی، اس سے عمارتوں کے فولاد کو بری طرح نقصان پہنچا۔ صبح نو بج کر 59 منٹ تک جلنے کے بعد جنوبی ٹاور منہدم ہو گیا۔ صبح 10 بج کر 28 منٹ پر شمالی ٹاور بھی زمین بوس ہو گیا۔
جیسے ہی ٹاور گرے آس پاس کی گلیاں گردوغبار اور راکھ کے بادلوں سے بھر گئیں جو پیدل چلنے والوں کا پیچھا کر رہے تھے۔ شمالی ٹاور کا ملبہ قریبی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت پر بھی گرا جس کی وجہ سے اس میں آگ لگ گئی اور بالآخر وہ منہدم ہو گیا۔
نیویارک شہر پر کیے گئے حملوں میں مجموعی طور پر 2753 افراد کی جان گئی۔
پینٹاگون
صبح نو بج کر 37 منٹ پر تیسرا طیارہ واشنگٹن ڈی سی کے قریب ورجینیا کے علاقے آرلنگٹن میں پینٹاگون کی مغربی دیوار سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔
طیارے میں سوار تمام 64 افراد جان سے گئے جب کہ عمارت میں موجود 125 افراد نے بھی جان گنوائی۔
طیارہ گرنے کے نتیجے میں عمارت کا ایک حصہ منہدم ہوگیا اور آگ بھڑک اٹھی جس پر قابو پانے میں کئی دن لگے۔ عمارت میں زندہ بچ جانے والے بہت سے لوگ بری طرح جھلس گئے۔ مجموعی طور پر 106 افراد زخمی ہوئے۔
پرواز 93
چوتھے طیارے یونائیٹڈ ایئرلائنز کی پرواز 93 کا انجام کچھ اور ہی ہوا۔ برسوں بعد جاری ہونے والی نائن الیون کمیشن رپورٹ کے مطابق مسافر اس طیارے میں سوار ہائی جیکروں پر قابو پانے میں کامیاب رہے اور انہیں اپنے ہدف تک پہنچنے سے روک دیا۔
چوں کہ پرواز میں موجود تمام افراد مارے گئے تھے اس لیے جو کچھ ہوا اس کی تفصیلات واضح نہیں ہیں۔
تاہم تفتیش کاروں کا ماننا ہے کہ جب چار دہشت گردوں نے فلائٹ 93 کا کنٹرول سنبھال لیا تو طیارے کے کچھ مسافروں کو ٹوئن ٹاورز اور پینٹاگون پر حملوں کے بارے میں معلوم ہو گیا۔
یہ شک کرتے ہوئے کہ انہیں جس ہائی جیکنگ کا سامنا ہے وہ اسی سازش کا حصہ ہے، بہادر شہریوں کے ایک گروپ نے کاک پٹ پر دھاوا بول دیا۔
اس کے بعد کیا ہوا یہ بالکل واضح نہیں، لیکن صوتی ریکارڈنگ سے پتہ چلتا ہے کہ مسافروں اور دہشت گردوں کے درمیان پرتشدد لڑائی ہوئی تھی۔ تصادم کے کچھ ہی دیر بعد طیارہ صبح 10 بج کر تین منٹ پر پنسلوینیا کے شہر شینکس ویل کے قریب ایک کھیت میں گر کر تباہ ہو گیا۔ طیارے میں سوار تمام 44 افراد جان سے گئے۔
تفتیش کاروں کا ماننا ہے کہ ہائی جیکروں کا مطلوبہ ہدف وائٹ ہاؤس یا امریکی کانگریس کی عمارت تھی۔
نتائج
مجموعی طور پر 11 ستمبر کے حملوں میں 2977 افراد کی جان گئی۔
ہزاروں رضاکاروں اور امدادی کارکنوں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہ شدہ عمارت جسے اب گراؤنڈ زیرو کے نام سے جانا جاتا تھا، میں زندہ بچ جانے والوں کو تلاش کیا۔ لاشیں نکالیں اور ملبہ اٹھایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ کارروائی 30 مئی 2002 تک جاری رہی جب فولاد کا آخری ٹکڑا بھی ہٹا دیا گیا۔ صفائی کرنے والے بہت سے لوگوں کو زہریلی دھول میں سانس لینے کی وجہ سے سرطان سمیت بیماریاں لاحق ہوئیں۔
مانا جاتا ہے کہ سائٹ پر کام کرنے والے دو ہزار سے زیادہ امدادی کارکن اب تک سرطان کی وجہ سے مر چکے ہیں جس کا تعلق نائن الیون سے ہوسکتا ہے۔
سیاسی اور ثقافتی طور پر نائن الیون نے امریکہ کو شدید خوف کے دور میں دھکیل دیا۔ مختصر یہ کہ اس واقعے نے دنیا کے زیادہ تر حصوں کو امریکہ کی حمایت میں اور زیادہ تر امریکی عوام کو سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے پیچھے متحد کر دیا۔
ستمبر کے آخر میں بش کی مقبولیت کی شرح 90 فیصد تک پہنچ گئی جو تاریخ میں کسی بھی صدر کے لیے سب سے زیادہ ہے۔
بہت سے امریکی شہریوں کے نزدیک نائن الیون کے حملے جوابی کارروائی کی شدید خواہش کا سبب بھی بنے۔ بش انتظامیہ نے افغانستان، جہاں القاعدہ کی جڑیں موجود تھیں، اور عراق میں نئی جنگوں کا جواز بنایا۔ حالانکہ عراق کا ان حملوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ 20 سال بعد دنیا اب بھی ان حملوں کے نتائج بھگت رہی ہے۔
© The Independent