نائن الیون کے متاثرین افغان اثاثے ضبط نہیں کر سکتے: امریکی جج

فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک میں موجود یہ اثاثے 15 اگست 2021 کو منجمد کیے گئے تھے۔ یہ وہی دن ہے جب طالبان نے کابل میں داخل ہو کر امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کا تختہ الٹا تھا۔

11 ستمبر 2001 کی صبح امریکی شہر نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے مناظر (اے ایف پی)

نیو یارک کے ایک وفاقی جج نے فیصلہ سنایا ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے متاثرین کے اہل خانہ افغانستان کے مرکزی بینک کے 3.5 ارب ڈالر کے فنڈز ضبط نہیں کر سکتے۔

فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک میں موجود یہ اثاثے 15 اگست 2021 کو منجمد کیے گئے تھے۔ یہ وہی دن ہے جب طالبان نے کابل میں داخل ہو کر امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کا تختہ الٹا تھا۔

 بعد ازاں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ یہ رقم نائن الیون کے متاثرین کے اہل خانہ کو فراہم کی جا سکتی ہے۔

متاثرہ خاندانوں کا ایک گروپ، جنہوں نے کئی سال پہلے طالبان پر مقدمہ دائر کیا اور جیت گئے تھے، بعد ازاں اس فیصلے میں فنڈز کی ادائیگی کے حکم پر عمل درآمد کے لیے عدالت گئے تھے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق نیویارک کے جنوبی ضلع کے جج جارج ڈینیئلز نے منگل کو کہا کہ وفاقی عدالتوں کے پاس افغانستان کے مرکزی بینک سے رقوم ضبط کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

جج جارج ڈینیئل نے اپنے 30 صفات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ ’جج پہلے سے طے شدہ فیصلوں سے حاصل ہونے والی رقوم کو تو امریکہ کے دہشت گردانہ حملوں سے متاثرین کو دینے کا حق رکھتے ہیں لیکن افغانستان کے مرکزی بینک کے فنڈز کو (ضبط) کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔‘

انہوں نے کہا کہ نائن الیون حملوں میں طالبان کی ذمہ داری، طالبان کو ادا کرنی ہوگی نہ کہ سابق اسلامی جمہوریہ افغانستان یا افغان عوام کو۔

جج ڈینیئلز نے یہ بھی کہا کہ وہ ان خاندانوں کو اثاثے دینے کے ’آئینی مجاز‘ نہیں، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ طالبان کو افغانستان کی قانونی حکومت کے طور پر تسلیم کیا جائے۔

سال2021 میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد بشمول امریکہ کسی بھی ملک نے طالبان کو افغانستان کی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔

بقول جج: ’بنیادی نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو طالبان اور نہ ہی فیصلے کے مطابق قرض وصول کرنے کے مستحق افردا کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ طالبان کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے ریاست افغانستان کے خزانے پر ہاتھ صاف کریں۔‘

جج ڈینیئلز کا فیصلہ، جو گذشتہ سال ایک اور جج کی سفارش سے مطابقت رکھتا ہے، نائن الیون کے متاثرین کے اہل خانہ سمیت انشورنس کمپنیوں کے لیے بھی ایک دھچکا ہے، جنہوں نے حملوں کی وجہ سے ادائیگیاں کیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نائن الیون کے واقعے میں نیو یارک میں ٹوئن ٹاورز، واشنگٹن ڈی سی میں پینٹاگون اور پنسلوانیا کے ایک کھیت میں چار ہائی جیک طیاروں کو ٹکرایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں دو ہزار 900 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش نے اس کے جواب میں افغانستان پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں امریکی حمایت یافتہ حکومت اور طالبان کے درمیان دو دہائیوں تک جنگ جاری رہی۔

اگست 2021 میں امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا اور سخت اسلامی قوانین نافذ کر دیئے۔

اس ملک کا انحصار تقریباً مکمل طور پر امداد پر تھا اور جب واشنگٹن نے افغان اثاثوں میں موجود سات ارب ڈالر منجمد کیے تو اس کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔

امریکی صدر جوبائیڈن فروری 2022 میں نقد رقم کو تقسیم کرنے کا منصوبہ لائے، جن میں سے نصف پیسے امداد کی صورت میں افغانستان اور نصف نائن الیون حملوں کے متاثرین کے اہل خانہ کو دیئے جائیں گے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اگر ان خاندانوں کی درخواستیں مسترد ہوگئیں تو ان کے لیے مختص 3.5 ارب ڈالر کا کیا ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ