امریکہ میں منجمد اثاثے افغان ملکیت تھے اور ہیں: پاکستان

پاکستان نے امریکہ میں منجمد افغان اثاثوں میں سے ساڑھے تین ارب ڈالرز نائن الیون متاثرین کو دینے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

کابل میں 12 فروری، 2022 کو امریکہ  کی جانب سے افغان اثاثوں میں سے نائن الیون متاثرین کو فنڈز دینے کے خلاف مظاہرہ کیا جا رہا ہے (اے پی)

افغانستان کے شہریوں نے ہفتے کو امریکہ میں منجمد افغان اثاثوں میں سے ساڑھے تین ارب ڈالرز کی رقم نائن الیون حملوں کے متاثرہ خاندانوں کو دینے کے صدر جوبائیڈن کے حکم کی مذمت کی ہے۔

دارالحکومت کابل میں مظاہرے کے دوران لوگوں نے کہا کہ  یہ پیسہ افغان عوام کا ہے۔

ادھر پاکستان نے امریکی فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ہفتے کو ایک نجی نیوز چینل سے گفتگو میں کہا کہ یہ منجمد اثاثے افغان ملکیت تھے اور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس رقم کے استعمال کا فیصلہ کرنے کا حق صرف افغان شہریوں کو ہے۔

’ہم چاہتے ہیں افغانوں کی مدد کی جائے۔ افغانستان کے لوگوں کوپیسوں کی اشد ضرورت ہے۔‘

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق مظاہرین کابل کی مرکزی عیدگاہ کے باہر اکھٹے ہوئے اور امریکہ سے مطالبہ کیا کہ افغانستان میں 20 سال تک جاری رہنے والی جنگ میں لاکھوں افغان شہریوں کی ہلاکت کا معاوضہ ادا کیا جائے۔

صدر بائیڈن کے حکم کے تحت، جس پر جمعے کو دستخط کیے گئے، افغان اثاثوں میں سے مزید ساڑھے تین ارب ڈالرز انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فراہم کی جانے والی امداد کے اس ٹرسٹ فنڈ کے لیے مختص کیے گئے ہیں جس کا انتظام اقوام متحدہ کے پاس ہو گا۔

اگست کے وسط میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد عالمی مالی امداد بند ہو گئی تھی۔ اس صورت حال سے متاثر ہونے والی افغان معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔

امریکی حمایت یافتہ سابق افغان حکومت کے مالی مشیر تورک فرہادی نے افغانستان کے مرکزی بینک کے ریزروز کا انتظام اقوام متحدہ کے پاس ہونے پر اعتراض کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ فنڈ انسانی ہمدردی پر امداد کے لیے نہیں ہیں بلکہ ’ملکی کرنسی کو مضبوط بنانے، مالیاتی پالیسی میں مدد اور ملک کی ادائیگیوں میں توازن لانے کے لیے ہیں۔‘

انہوں نے صدر بائیڈن کے حکم کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا۔

فرہادی کے بقول: ’یہ مالی اثاثے افغان عوام کے ہیں، طالبان کے نہیں۔ بائیڈن کا فیصلہ یک طرفہ ہے اور بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔ زمین پر کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک کے اثاثے ضبط کرنے کا فیصلہ نہیں کرتا۔‘

افغانستان کے بیرون ملک تقریباً نو ارب ڈالرز کے اثاثے ہیں جن میں امریکہ میں موجود سات ارب ڈالرز بھی شامل ہیں۔ باقی زیادہ تر جرمنی، متحدہ عرب امارات اور سوئٹزرلینڈ میں ہیں۔ احتجاجی مظاہرے کے منتظم اور سول سوسائٹی کے لیے کام کرنے والے عبدالرحمان نے سوال کیا کہ ’ہمارے افغان لوگوں کا کیا ہوگا جنہوں نے بہت سی قربانیاں دیں اور ہزاروں جانیں گنوائیں۔‘

رحمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے صدر بائیڈن کے حکم کے خلاف احتجاج کے لیے پورے دارالحکومت میں مزید مظاہروں کا منصوبہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘یہ رقم افغانستان کے لوگوں کی ہے امریکہ کی نہیں۔ یہ افغانوں کا حق ہے۔‘

کابل میں ہونے والے احتجاج میں مظاہرین نے کتبے اٹھا رکھے تھے جن میں سے کچھ میں امریکہ پر الزام لگایا گیاکہ وہ بے رحمی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور افغان شہریوں کا پیسہ چرانے میں مصروف ہے۔

جو بائیڈن کے جمعے کے اس حکم نے سوشل میڈیا پر طوفان پرپا کر دیا ہے۔ ٹوئٹر پر# امریکہ نے افغان پیسہ چرایا کا افغان شہریوں میں ٹرینڈ کر رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغانستان میں امریکی یونیورسٹی کے لیکچرر عبیداللہ بہیر نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’ہم دنیا کو یاد دلا دیں کہ نائن الیون کے حملے افغانوں نے نہیں کیے۔ بائیڈن افغان پیسہ چوری کر رہے ہیں۔‘

امریکہ میں قائم ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کگلمین نے افغانستان کے اثاثوں سے ساڑھے تین ارب ڈالزر کے دوسرے مقصد کے لیے استعمال کے فیصلے کو’سنگدلی‘ قرار دیا۔

کگلمین نے اپنی ٹویٹ میں کہا: ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان شہریوں کی امداد کے لیے ساڑھے تین ارب ڈالرز غیر منجمد کرنا بڑا کام ہے لیکن افغان عوام کے پیسے سے دوسرے ساڑھے تین ارب ڈالرز لے کر انہیں کسی جگہ استعمال کرنا گمراہی اور صاف بات ہے کہ سنگدلی ہے۔‘

کگلمین نے کہا کہ صدر بائیڈن کے حکم کی افغانستان میں موجود گہری سیاسی تقسیم سمیت ملکی سرحدوں سے باہر بھی مخالفت کی گئی ہے۔

انہوں نے ٹویٹ میں کہا: ’مجھے یاد نہیں آ رہا کہ انتہائی مختلف عالمی خیالات رکھنے والے افراد اتنی بڑی تعداد میں افغانستان پر امریکہ کے پالیسی فیصلے کے خلاف آخری بار کب متحد ہوئے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ