کشمیر بحران: ’مجھے یاد ہے جب انسانیت نے پروپیگینڈا کو شکست دی‘

پاکستان اور بھارت کے درمیان انسانی تعلقات میں تیزی سے ہونے والی خرابی کسی سانحے سے کم نہیں۔

بھارتی حکومت کے تازہ فیصلے نے جن کو بوتل سے باہر نکال دیا ہے جس سے دو بڑی آبادیوں والے ملک منحوس جنگ کے دہانے پر آ کھڑے ہوئے ہیں(اے ایف پی)

ایک دہائی پہلے میں موسم سرما کی ایک بھیگی صبح جب آکسفورڈ یونیورسٹی میں طلبا کی رہنمائی کے لیے بنے ہال میں داخل ہوئی تو یہ جان کو اطمینان ہوا کہ تاخیر سے آنے والوں میں، میں اکیلی نہیں تھی۔

ایک آواز نے سرگوشی کی ’ہم بھارت کے معیاری وقت کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ تاخیر سے پہنچنا فیشن ہے‘۔ یہ آواز ایک لڑکے کی تھی جس کا تعلق دہلی سے تھا۔

ہم دونوں نے اس دیسی لطیفے پر قہقہہ لگایا جو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کا تعلق برصغیر سے ہو۔’میں پاکستانی ہوں‘ میں نے وضاحت کی۔’ایک ہی بات ہے‘، انہوں نے جواب دیا۔

جلد ہی مجھے پتہ چلا کہ ہم پکے دوست بن چکے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہوا تھا اور چند ماہ بعد ہم نے’دال اور کلاشنکوفیں‘ کے عنوان سے بلاگ کا آغاز کیا۔

یہ بلاگ ہمارے ملکوں کے درمیان موجود بظاہرغلط لیکن درحقیقت درست اور پیچیدہ معاملے کی عکاسی کرتا تھا۔ بعد میں جب میں پاکستان سے یہاں چلی آئی تو جب بھی ہم دیسی آملیٹ کھانا چاہتے یا کسی ریستوراں میں مجھے سرکے سے ہونے والی اپنی الرجی کے بارے میں بتانا پڑتا تو میرے خاوند کسی بھارتی ویٹر کو بھیجنے کی درخواست کرتے۔

وہ ہماری بات سمجھ لیتے ہیں۔ مشترکہ زبان کی وجہ سے کھانے پینے میں اپنی پسند ناپسند کے بارے میں بتانا ہمیشہ آسان ہوتا ہے۔ بہرحال 73 سال پہلے بھارت اور پاکستان الگ ملک نہیں تھے۔

تقسیمِ برصغیر اکثر ایسے محسوس ہوتی ہے جیسے کوئی دو بھائیوں کی، جن کے والدین میں تلخ حالات میں طلاق ہو جائے، زبان، تہوار، لباس، پکوانوں کے مصالحے،موسیقی اور لوک کہانیاں سب ایک جیسی ہوں۔

بلاشبہ حکومتی مشینری، تعلیمی نصاب اور سرکاری ذرائع ابلاغ میں کینہ موجود تھا۔ ان سب نے دشمنی پر مبنی جذبات کو ابھارا، خاص طور پرکشمیر کا بحران۔

دونوں ملکوں کے درمیان کئی بار جنگ ہو چکی ہے اور صورت حال دوستانہ کے بجائے پاگل پن کا شکار رہی ہے۔ تاہم پاکستان میں سرکاری ٹیلی ویژن پر نو بجے کے خبرنامے میں کشمیر کے بارے میں سن کر ناظرین انسانوں کے درمیان مذاکرات اور سیاسی پینتروں میں تمیز کر سکتے ہیں۔

ریاستی پروپیگنڈے کے باجود عوامی سطح پر باہمی تعلقات، فلموں کی نمائش میں سرحد پارتعاون، موسیقی، فن اور ادب نسبتاً متاثر نہیں ہوئے۔ اس صورت حال سے زہریلے نظریات کے ذاتی شعبے میں حاوی اور انہیں اپنائے جانے کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔

جب پاکستانی اداکار فواد خان کے سوشل میڈیا فالورز نے بھارت میں وہ لڑائی لڑی جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی تو یہ مثال ایسی محسوس ہوئی جیسے انسانیت نے سیاسی ایجنڈوں کا دروازہ مضبوطی سے بند کر دیا ہو۔

تاہم حال ہی میں سوشل میڈیا ٹرینڈ میں تبدیلی آنے لگی۔ پلوامہ واقعے اور مبینہ بالاکوٹ حملے کے بعد امن کی پیشکش کی گئی جسے قبول بھی کیا گیا لیکن بعد میں انکار کر دیا گیا۔

اختلاف کا بیانیہ مسلسل تیاری کے مرحلے میں تھا۔ پانچ اگست کو جب بھارتی وزیر داخلہ نے ملکی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی تجویز دی تو مستقبل کے اختلافات کے آثار نظر آنے شروع ہو گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نئے قانون کے تحت ریاست جموں اور کشمیر کو یونین کا حصہ بنا دیا گیا جو پہلے جموں اور کشمیر کے علاقے کے طور پر جانے جاتے تھے۔

یونین میں شامل ہونے کے بعد ان علاقوں کا انتظامی کنٹرول براہ راست بھارت کی مرکزی حکومت کے پاس ہوگا۔ کشمیر کی مقامی سطح پر منتخب ہونے والی قانون ساز اسمبلی بھی موجود رہے گی لیکن اس کے اختیارات محدود ہوں گے۔

دوسرا علاقہ لداخ ہے۔ اسے بھی دہلی سے براہ راست کنٹرول کیا جائے گا لیکن اس کی اسمبلی نہیں ہوگی۔ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت بھی ختم کردی گئی ہے جس کے تحت وہاں الگ آئین اور الگ جھنڈا موجود تھا۔

ایک ایسے دور میں جب ٹوئٹر پیغامات اخباروں کی سرخیاں بن جاتے ہیں، ایسے اعلان نے ایک طرح سے راکھ میں موجود چنگاری کو ہوا دی ہے۔ مشہور لوگوں سے لے عام شہری تک، ایسا اشتعال پیدا ہو گیا ہے جسے روکا نہیں جا سکتا۔

یہ ’عام آدمی‘ کے جذبات میں تبدیلی ہے۔ دوستی اور شناسائی سے اجنبیت اور نفرت میں تبدیلی۔ اس خوفناک صورت حال کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔

اختلاف کی فضا تاریخی طور پر قائم ہے لیکن یہ زیادہ تر کرکٹ میچوں، خاص طور پر شارجہ میں ہونے والے ہائی ولٹیج پاک بھارت کرکٹ میچ تک محدود تھی۔

بھارتی حکومت کے تازہ فیصلے نے جن کو بوتل سے باہر نکال دیا ہے جس سے دو بڑی آبادیوں والے ملک منحوس جنگ کے دہانے پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔

رول ماڈل اور رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والے اداکار، کھلاڑی، ٹیلی ویژن اینکر بھی سیاست کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں اور اپنی وفاداری کا سرعام اعلان کرنے پر مجبور ہیں۔

وہ کیچڑ اچھال کر اور سخت قسم کی حب الوطنی کا اظہار کر کے بظاہر بڑی تعداد میں اپنے مداح پیدا کر رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کھیل کے میدان میں کرکٹ سپرسٹارز جاوید میاں داد اور سنیل گواسکر کی دوستانہ دل لگی کے دن ختم ہو گئے جب ایک دوسرے کی بےعزتی کی نوبت کبھی نہیں آتی تھی۔

جنگی جنون کو ہوا دینے والے ماحول کے درمیان – قطع نظر اس کے کہ کون کس پرچم کا حامی ہے– طویل عرصے سے چلی آنے والی حقیقت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے: جب دونوں ملک طاقت کے کھیل میں تبدیلی کے لیے اپنی ایٹمی صلاحیت کی شیخی مارتے ہیں تو’طاقتور اور کمزور‘کے روایتی تصورات پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔

دونوں طرف تباہی یقینی ہے۔ یہ ڈیڑھ ارب(زمین کی کل آبادی کا چوتھا حصہ) آبادی کا مسئلہ ہے۔ معاملات دو فوجوں یا حکومتوں تک محدود نہیں ہیں۔ ٹوئٹربریگیڈ جس میں بڑی شخصیات بھی شامل ہیں، بڑے پیمانے تباہی کے نتیجے پر توجہ دیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان انسانی تعلقات میں تیزی سے ہونے والی خرابی کسی سانحے سے کم نہیں۔ ہر بار جب میں اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ کھولتی ہوں تو میں ہر طرف سرد مہری پر مبنی اجنبیت کی زبان دکھائی دیتی ہے۔

عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی فضا میں یہ زبان عوام کو لاحق عدم تحفظ کے مخفی خطرات کے رجحان کو فروغ دے رہی ہے، جن میں معاشی مسائل خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

بھوک کے شکار ممالک کی عالمی فہرست میں پاکستان 103 ویں اور بھارت 106 ویں نمبرپر ہے۔ دو ایسے ملکوں میں مسائل سے توجہ ہٹانے کی ایسی کوششیں بے تکی معلوم ہوتی ہیں اور طویل مدت کے جس خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے، اس کے ذکر کی ضرورت نہیں۔

ایسا پروپیگینڈا جس کو اگر تیز کرنے کی اجازت دی گئی تو صورت حال کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ ووٹ اکٹھے کرنے کی جدوجہد اور جنگی جنون کے خاتمے کے بعد موجودہ صورت حال کے اثرات طویل عرصے تک برقرار رہیں گے۔ یہ اثرات اس انداز میں ظاہر ہوں گے، جنہیں سیاسی جماعتوں اورحکومتوں کو سمجھنا مشکل ہوگا۔

اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ گذشتہ ہفتے چیز کیک فیکٹری نامی ریستوراں میں ایک بھارتی خاتون ویٹر کو ہماری میز کے لیے مخصوص کیا گیا۔

میرے ساتھ موجود لڑکیوں نے جو ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں ان پر موٹے موٹے حروف میں ’پاکستان‘ لکھا ہوا تھا۔ ہمارے سامنے مینو رکھنے اور ریستوراں کی خاص ڈشوں کے بارے میں بتانے سے پہلے ویٹر نے میرے ساتھ بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اورمیری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہا: ’میڈم بھارت اور پاکستان کے لوگ ایک جیسے ہیں‘۔

میں فیصلہ نہ کر سکی کہ یہ اس کی معصومیت تھی یا جذبات – کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں معمول کی صورت حال تیزی نفرت کی جگہ لے رہی ہے – میرا دل ٹوٹ گیا تھا یا اس میں امید بھر گئی تھی۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ