جڑانوالہ واقعے کا ایک ماہ مکمل: پولیس واٹس ایپ گروپس کی تحقیقات کر رہی ہے

16 اگست کو فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں توہین مذہب کے الزام میں مسیحی برادری کے گھروں اور عبادت گاہوں پر حملوں کا ایک ماہ مکمل ہونے پر انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی رپورٹ۔

ایک پولیس اہلکار 20 اگست، 2023 کو جڑانوالہ میں جلائے گئے چرچ پر پہرہ دے رہا ہے (اے ایف پی/ غضنفر ماجد)

فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں 16 اگست کو مبینہ توہین مذہب کے الزام پر گرجا گھروں اور مسیحی برادری کے مکانوں کی توڑ پھوڑ کے واقعے کو آج ایک ماہ مکمل ہو گیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیق کے مطابق اس کیس کے متاثرین کی زندگیاں معمول پر آنے میں کافی وقت لگے گا اور پولیس مشتعل ہجوم کے اچانک سرگرم ہونے کی وجوہات جاننے کے لیے مختلف وٹس ایپ گروپوں کے کردار کو بھی دیکھ رہی ہے۔

پنجاب پولیس نے توہین مذہب کے الزام میں دو مسیحی نوجوانوں کے علاوہ توڑ پھوڑ کے الزام میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔

واقعے کو ایک ماہ گزرنے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو نے جڑانوالہ کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اب وہاں زندگی کس حد تک معمول پر آ چکی ہے، یہاں حالات کیسے ہیں اور ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کس موڑ پر ہے؟

کچھ مقامی لوگوں کا الزام تھا کہ مشتعل ہجوم کو روکنے کے لیے پولیس تاخیر سے حرکت میں آئی۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے مطابق پولیس کے پاس ایک چھوٹے قصبے میں بڑے پیمانے کے تشدد پر قابو پانے کے لیے مناسب انتظامی وسائل اور قانون کے نفاذ سے متعلق دیگر ذرائع دستیاب نہیں تھے، جس کی وجہ سے اسے صورت حال سے نمٹنے میں مشکلات پیش آئیں۔

تاہم، کمیشن کے مطابق پولیس کی طرف سے واقعے پر جوابی کارروائی کرنے میں تاخیر اور ہجوم پر قابو پانے کے لیے ناقص حکمتِ عملی اختیار کرنے کا معاملہ تشویش کا باعث ہے۔

فیصل آباد کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) انویسٹی گیشن ڈاکٹر رضوان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جڑانوالہ میں تقریباً 72 مسیحی عبادت گاہیں موجود ہیں، جن میں سے پولیس اور انتظامیہ نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے 23 گرجا گھروں کو نقصان پہنچنے سے بچایا۔ ’دو گرجا گھروں کو ہم نے جلانے سے بچایا۔‘

ڈاکٹر رضوان کہتے ہیں: ’16 اگست کو مشتعل افراد اور پولیس کے درمیان تمام دن کشیدگی چلتی رہی، جس کے بعد اسی روز تقریباً 100 افراد کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔

’پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس دن یہ بات بھی نوٹ کی اور جسے اب تفتیش کا حصہ بھی بنایا گیا ہے کہ ہجوم بہت جلدی جمع ہو گیا تھا۔

’ہم دیکھیں گے کہ یہ افراد کن واٹس ایپ گروپس میں موجود ہیں جو آپس میں بہت جلد رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔‘

پنجاب پولیس مستقبل میں ان گروپس کے افراد پر نظر رکھنے کے لیے ان کے نمبروں اور نقل و حمل کی نگرانی کو یقینی بنانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔

’مصیبت کا دن‘

40 سالہ راحیل مسیح بھی ان درجنوں افراد میں شامل تھے جو 16 اگست کی صبح اپنے گھر میں موجود تھے۔ ان کے لیے وہ بدھ کی صبح اس وقت تک معمول کی صبح تھی۔

’جب میں اپنے بچوں کے لیے ناشتے کا دودھ وغیرہ لینے کے لیے گھر سے نکلنے والا تھا کہ اس دوران مجھے قریبی چرچ کے، جہاں وہ ہر اتوار کو عبادت کے لیے جاتے ہیں، پاسٹر کی کال موصول ہوئی۔

’پاسٹر نے مجھے کال پر بس اتنا کہا کہ راحیل تم اپنے گھر والوں کو لے کر فوراً یہ علاقہ چھوڑ دو۔

’میں نے پوچھا کہ ایسا کیا ہوا ہے؟ تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ زیادہ تفصیلات میں نہیں دے سکتا ابھی بس تم نکلنے کی کرو۔‘

راحیل ان کی بات نہ سمجھ سکے لیکن پاسٹر نے جو کہا وہ ان کے لیے حیران کن تھا۔

’ہمارے حالات کوئی زیادہ اچھے نہیں تھے۔ کسی نے ناشتہ تو کیا پاؤں میں چپل بھی نہیں پہنی تھی۔ ہم اپنے مکان کو تالا لگا کر جلدی جلدی نکل پڑے۔‘

راحیل مسیح نے مزید بتایا کہ ’ہم جیسے ہی گھر سے نکلے تو پتہ چلا کہ باہر ہر طرف بھاگ دوڑ ہو رہی ہے۔ سب لوگ گھروں سے نکل رہے ہیں اور ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ پھر تھوڑی دور جا کر پتہ لگا کہ آخر ماجرہ کیا ہے۔

’کسی نے بتایا کہ قرآنی نسخوں کی مبینہ بےحرمتی کا معاملہ ہے اور کچھ لوگ ہجوم کی صورت میں مسیحی برادری کی عبادت گاہوں، مکانات اور املاک کو جلا رہے ہیں۔

’میں جیسے ہی باہر نکلا تو دیکھا ایک ہجوم اگلے محلے تک پہنچ آیا ہے اور توڑ پھوڑ شروع کر دی ہے۔

’اس وقت دن کے 11 بجنے والے تھے کہ میں اپنے گھر سے تقریباً دو کلومیٹر دور کھیتوں میں جا کر چھپ گیا اور انتظار کرنے لگا۔ میرے ساتھ میرے خاندان کے دیگر لوگ بھی تھے۔‘

راحیل اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اس کھیت میں ایک درخت کے نیچے شام پانچ بجے تک چھپا رہا۔ انہیں کچھ معلوم نہیں تھا پیچھے ان کے علاقے میں کیا ہو رہا ہے۔ وہاں سے نکل وہ بلآخر وہ کرائے کی گاڑی میں فیصل آباد آ گئے۔

راحیل کی عیسیِ نگری میں سب سے زیادہ تباہی ہوئی۔ خوش قسمتی اور بروقت اطلاع کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن سپیشل برانچ کی ایک رپورٹ کے مطابق مشتعل مظاہرین نے عیسیٰ نگری میں 15 مکانات اور تین گرجا گھروں کو آگ لگائی۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق جڑانوالہ میں مقامی مسیحی برادری پر حملے میں کم ازکم 24 گرجا گھروں، کئی چھوٹی عبادت گاہوں اور درجنوں گھروں کو آگ لگائی اور لوٹ مار کی گئی۔

راحیل کے مکان سے بھی اہم سازوسامان، قسمتی اشیا اور سونا چاندی تو کیا ایک کتا اور جاپانی طوطے بھی حملہ آور ساتھ لے گئے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک ویڈیو میں جڑانوالہ کے سینیما چوک کے قریب واقع ایک مسجد کے سپیکر پر ایک شخص کو لوگوں کو نکلنے پر اکسانے کی تقریر دیکھی جاسکتی ہے۔ ’تم لوگ ناشتے کے لیے بیٹھے ہو، کیسے مسلمان ہو تم لوگ۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس اعلان کی چند مقامی افراد نے بھی تصدیق کی۔ ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کے مطابق ملزم کو گرفتار کرنے کی کوشش جاری ہے۔

ان حملوں میں مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکنان کے ملوث ہونے کے سوال پر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے کہا کہ ’ٹی ایل پی سمیت دیگر جماعتوں، بالخصوص شرارتی عناصر کا بھی اس میں اہم کردار ہے، جن کی گرفتاری عمل میں لائی جا رہی ہے۔‘

تحریک لبیک کے مقامی رہنما نے تاہم انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے تو لوٹ مار سے لوگوں کو منع کیا۔

تحریک لبیک پنجاب کے صدر آصف اللہ شاہ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی نے احتجاج کیا ہے تو یہ ایک مسلمان کا حق ہے۔ وہ آئین اور قانون کی حد میں رہتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کروا سکتا ہے۔

’اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو پھر وہ مسلمان ہی نہیں رہے گا۔ یہ اس کا یہ ایمانی اور غیرت کا تقاضہ ہے۔‘

تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ کچھ لوگوں نے اس حد سے تجاوز کیا جن کو گرفتار کروایا گیا ہے۔ ’ٹی ایل پی کے آٹھ یا نو کارکن ہیں جو بے گناہ ہیں۔ ان کو ہم جلد رہا کروا لیں گے۔‘

نگران وفاقی حکومت اور نگران پنجاب حکومت نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مکمل تحقیقات کر کے ملزموں کو سزائیں دلوانے کا عزم ظاہر کر چکی ہے۔

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے 16 اگست کو ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا: ’جڑانوالہ سے سامنے آنے والے مناظر سے مجھے سخت صدمہ پہنچا ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

’تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑیں اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ یقین رکھیں کہ حکومت پاکستان برابری کی بنیاد پر اپنے شہریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔‘

پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) ڈاکٹر عثمان انور نے 30 اگست کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا تھا کہ جڑانوالہ واقعے میں ملوث تمام ملزمان اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں، جنہیں قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی